واٹس ایپ کی مصنوعی ذہانت ( آرٹیفیشل انٹیلی جنس) سے جب کوئی ٹیکسٹ لکھ کر تصویر بنانے کو کہا جاتا ہے تو وہ محض چند سیکنڈ میں تصویر بنا کر صارفین کو پیش کر دیتا ہے، ایک لحاظ سے یہ فیچر نہایت اہمیت کا حامل ہے لیکن دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ اس مصنوعی ذہانت کو بھی اسلاموفوبیا ہو گیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’دی گارڈین‘ کی رپورٹ کے مطابق واٹس ایپ کے آرٹیفشل امیج جنریٹر کو جب فلسطین کے مسلمان لڑکے کی تصویر جنریٹ کرنے کو کہا جاتا ہے تو وہ بندوق تھامے فلسطینی بچے کی تصویر یا اسٹیکرز بناتا ہے جبکہ اسی فیچر سے جب اسرائیلی لڑکے کا اسٹیکر بنانے کو کہا جاتا ہے تو ایک ایسے اسرائیلی لڑکے کی تصویر سامنے آتی ہے جس کے ہاتھ میں کوئی بندوق نہیں ہوتی، حتی کہ واٹس ایپ کے آرٹیفشل انٹیلی جنس فیچر کو اسرائیلی فوجی کا اسٹیکر بنانے کو کہا جائے تو بھی بغیر بندوق کے اسرائیلی فوجی کا اسٹیکر سامنے آتا ہے۔
دی گارڈین‘ نے اسکرین کے ذریعے تصدیق کی ہے واٹس ایپ پر ٹیکسٹ کے ذریعے جب’ Muslims boy Pelestinian کا اسٹیکر بنانے کو کہا گیا تو بندوقوں کی تصویر کشی کرنے والے مختلف اسٹیکرز سامنے آئے ہیں۔ لیکن جب اسرائیلی لڑکے کا اسٹیکر جنریٹ کرنے کو کہا گیا تو اسرائیلی بچوں کے فٹ بال کھیلنے اور پڑھائی کرتے ہوئے کارٹون سامنے آئے۔ ‘اسرائیلی فوجی’ کے اسٹیکر بنانے کو کہا گیا تو واٹس ایپ اے آئی نے مسکراتے ہوئے اور دعا کرنے والے فوجی کی ڈرائنگ بنائی جبکہ اس کے ہاتھ میں کوئی بندوق نہیں تھی۔
گارڈین نے واٹس ایپ کے امیج جنریٹر فیچر پر ‘مسلم لڑکا فلسطینی’ لکھا تو اس نے فلسطینی بچوں کی 4تصاویر تیار کیں، ان تصاویر میں ایک لڑکا AK-47 جیسا آتشیں اسلحہ اٹھائے ہوئے ہے اور اس نے ٹوپی پہنی ہوئی ہے، جسے عام طور پر مسلمان مرد اور لڑکے پہنتے ہیں۔
جب واٹس ایپ آرٹیفشل انٹیلی جنس کو اسرائیلی لڑکے کا اسٹیکر بنانے کو کہا گیا تو اسرائیلی جھنڈا اور ایک آدمی رقص کرتے ہوئے سامنے آئے ‘حماس’ کا اسٹیکر بنانے پر پیغام سامنے آیا کہ ‘اے آئی اسٹیکرز نہیں بن سکے، دوبارہ کوشش کریں.’
ایک صارف نے ‘فلسطینی’ کی تلاش کے اسکرین شاٹس شیئر کیے جس کے نتیجے میں بندوق تھامے ایک شخص کی دوسری مختلف تصویر سامنے آئی۔
اس تناظر میں واٹس ایپ کی مدر کمپنی ’میٹا‘ کو سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے زبردست تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ میٹا کمپنی فلسطینیوں کی توہین کر رہی ہے اور ان کا تاثر دنیا میں بگاڑ رہی ہے۔
صارفین کا کہنا ہے کہ میٹا اپنی پالیسیوں کو متعصبانہ انداز میں نافذ کر رہا ہے، یہ عمل سنسرشپ کے مترادف ہے۔
دوسری طرف میٹا کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ان کا مقصد کبھی بھی کسی خاص کمیونٹی یا نقطہ نظر کو کچلنا نہیں ہے۔ ایسا غلطی سے ہوسکتا ہے۔
میٹا کے ایک ترجمان کیون میک الیسٹر نے کہا کہ ’کمپنی اس مسئلے سے آگاہ تھی اور اسے حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جیسا کہ ہم فیچر لانچ کرتے ہوئے آگاہ کیا تھا تو ماڈلز تمام جنریٹر اے آئی سسٹمز کی طرح غلط یا نامناسب نتائج دے سکتا ہے، ہم ان خصوصیات کو بہتر بناتے رہیں گے ۔‘
صارفین نے دیگر مثالیں بھی دی ہیں جیسا کہ عربی متن میں ‘الحمد للہ’ کا ترجمہ اے آئی نے ‘فلسطینی دہشت گرد’ کیا ہوا ہے، کمپنی نے اس کے لیے معافی مانگی اوراسے ‘غلطی’ قرار دیا۔
میٹا کی نسل پرستانہ اور اسلامو فوبک تصویر کشی کی تحقیقات کی جائیں، اسٹریلوی سینیٹر
دوسری جانب آرٹیفشل انٹیلی جنس سے تیار کردہ اسٹیکرز کے بارے میں آسٹریلوی سینیٹر مہرین فاروقی نے ملک کے ای سیفٹی کمشنر سے ‘میٹا کی طرف سے تیار کی جانے والی نسل پرستانہ اور اسلامو فوبک تصویر کشی’ پرتحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا۔
مہرین فاروقی کا کہنا ہے کہ ‘واٹس ایپ پر بندوقوں کے ساتھ فلسطینی بچوں کی تصویر کشی نسل پرستانہ اور اسلامو فوبک معیار کے حوالے سے خوفناک عمل ہے، نسل پرست ‘بگس’ کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے؟ میٹا کو جوابدہ ہونا چاہیے۔
‘میٹا فلسطینیوں کے حق اظہار رائے کی خلاف ورزی کر رہی ہے’
میٹا کو بارہا فلسطینی تخلیق کاروں، کارکنوں اور صحافیوں کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، خاص طور پر غزہ اور مغربی کنارے میں رہنے والے فلسطینیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد یا اسرائیلی جارحیت کے تناظر میں۔
کمپنی کی جانب سے ستمبر 2022 کے ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ مئی 2021 میں غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملوں کے دوران فیس بک اور انسٹاگرام کی پالیسیوں نے فلسطینیوں کے بنیادی انسانی حقوق سلب کیے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میٹا کے اقدامات سے فلسطینی صارفین کے اظہار رائے کی آزادی، اجتماع کی آزادی، سیاسی شرکت اور عدم امتیاز کے حقوق پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور اسی وجہ سے فلسطینیوں کی ان کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کرنے کی صلاحیت پر بھی منفی اثر پڑا ہے۔