امریکی صدر جو بائیڈن 81 برس کے ہو گئے ہیں۔ گو کہ انہوں نے اوول آفس کی سربراہی کرنے والے سب سے عمر رسیدہ امریکی صدر ہونے کا اعزاز پالیا ہے مگر رائے عامہ کے جائزوں میں امریکیوں کی بڑی تعداد نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جو بائیڈن اپنے دوبارہ بطور صدر انتخاب کے خواہاں ہیں حالانکہ وہ اس عہدے کے لیے اب بہت بوڑھے ہوچکے ہیں۔
اپنی سالگرہ پر بائیڈن نے ہلکے پھلکے انداز میں اپنی عمر 198 سال بتا کر اپنے ووٹرز اور ان کی عمر کے حوالے سے فکر مند لوگوں کو باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ وہ وائٹ ہاؤس کے سخت کام کرنے کے لیے واقعی بہت بوڑھے ہیں مگر ان کا نصف صدی پر پھیلا عوامی زندگی کا تجربہ ایک اثاثہ ہے جو امریکا کو مسائل سے نمٹنے میں مدد دے گا۔
مزید پڑھیں
اگر بائیڈن دوبارہ صدر منتخب ہوئے تو وہ اپنی دوسری میعاد کے اختتام تک 86 برس کے ہوجائیں گے۔ بائیڈن سے پہلے عمر رسیدہ امریکی صدر کا ریکارڈ ریپبلکن رونالڈ ریگن کے پاس تھا جنہوں نے 1989ء میں 77 سال کی عمر میں اپنی دوسری 4 سالہ مدت مکمل کی تھی۔
دوسری جانب جو بائیڈن کے حریف ڈونلڈ ٹرمپ کی عمر 77 برس ہے اور وہ 2024ء کے انتخابات میں بائیڈن کو چیلنج کرنے کے لیے ممکنہ طور پر ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ہیں۔ حیرت انگیز طور پر امریکی ووٹرز کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی عمر پریشانی کا باعث نہیں بنی۔
واضح رہے کہ خبر رساں ادارے رائٹرز کی جانب سے ستمبر کے وسط میں کیے گئے ایک سروے میں ووٹرز نے بائیڈن کی عمر اور دفتر کے لیے ان کی فٹنس پر تشویش کا اظہار کیا۔ 77 فیصد جواب دہندگان، بشمول 65 فیصد ڈیموکریٹس نے کہا کہ بائیڈن صدر بننے کے لیے بہت بوڑھے ہیں، جب کہ صرف 39 فیصد نے کہا کہ بائیڈن صدارت کے لیے ذہنی طور پر کافی تیز ہیں۔
اس کے مقابلے میں، سروے کے 56 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ ٹرمپ عہدے کے لیے بہت بوڑھے ہیں، جب کہ 54 فیصد نے کہا کہ وہ صدارت کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ذہنی طور پر کافی تیز ہیں۔