العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف نواز شریف کی اپیل پر اہم پیش رفت، اسلام آباد ہائیکورٹ نے 7 دسمبر کو اپیل مقرر کردی۔ دوسری طرف نیب کی طرف سے نواز شریف کی سزا بڑھانے کے لیے اپیل بھی سماعت کے لیے مقرر۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب سماعت کریں گے۔
العزیزیہ اسٹیل مل کیس کیا ہے؟
پاناما مقدمے کی سماعت کے دوران جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے احتساب عدالت کے سامنے 15 مئی 2018 کو اپنے ریکارڈ کرائے گئے بیان میں بتایا تھا کہ سعودیہ میں قائم العزیزیہ اسٹیل مل نے 2010 سے لے کر 2015 تک 99 لاکھ ڈالر کمائے، جس میں سے حسین نواز نے 89 لاکھ ڈالر میاں نواز شریف کو تحفہ میں دے دی جو کہ اس مل کی کمائی کا 88 فیصد حصہ بنتا ہے۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف اس اسٹیل مل کے اصل مالک جب کہ حسین نواز ان کے بے نامی دار ہیں۔
حسین نواز بعد ازاں اس مقدمے میں احتساب عدالت کے سامنے پیش نہ ہوئے جس پر عدالت نے انہیں اشتہاری قرار دے دیا تھا۔
29 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں میاں نواز شریف کو مریم نواز بریّت فیصلے کی روشنی میں بری کر دیا جس میں عدالت نے کہا تھا کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات اور بے نامی دار کو ثابت کرنے کے لیے کچھ قانونی تقاضے ہیں جو نیب نے پورے نہیں کیے۔ جبکہ نیب نے فلیگ شپ کرپشن ریفرنس میں نواز شریف کی احتساب عدالت سے بریّت کے خلاف اپیل واپس لے لی۔
اپریل 2017 میں سپریم کورٹ کے حکمنامے کے روشنی میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف پر کرپشن کے 3 مقدمات قائم کئے گئے تھے جن کا ٹرائل اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ہوا۔
العزیزیہ بھی ایون فیلڈ کی طرح بے نامی جائیداد کا مقدمہ
بنیادی طور پر ایون فیلڈ، العزیزیہ اور فلیگ شپ کرپشن ریفرنسز کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ یہ جائیدادیں اصل میں میاں نواز شریف کی ملکیت ہیں جبکہ ان کے بچے ان کے بے نامی دار ہیں۔ میاں نواز شریف کے خلاف ایون فیلڈ اور فلیگ شپ کرپشن ریفرنس تو ختم ہو گئے لیکن ابھی العزیزیہ کرپشن ریفرنس میں ان کی بریّت ہونا باقی ہے۔
پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کا بیان
واجد ضیا کا یہ کہنا تھا کہ جب ہم نے حسین نواز سے العزیزیہ اسٹیل مل کے حوالے سے دریافت کیا کہ وہ اسٹیل مل کی مالی پوزیشن کے بارے میں بتائیں کہ کس طرح سے وہ اپنے والد میاں نواز شریف کو اتنی بڑی رقومات بھجواتے رہے تو وہ اس حوالے سے کوئی دستاویزات نہیں دے سکے۔ جس پر جے آئی ٹی نے نتیجہ اخذ کیا کہ العزیزیہ اسٹیل مل کی مالی پوزیشن اچھی نہیں تھی اور حسین نواز، میاں نواز شریف کو اتنی بڑی رقومات نہیں بھجوا سکتے تھے۔ کیونکہ 2010 میں اسٹیل مل کا منافع 5 لاکھ 88 ہزار ڈالر تھا، جبکہ حسین نواز نے اپنے والد کو 15 لاکھ ڈالر بھجوائے۔ 2015 میں اسٹیل مل کو 15 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا اور اس سال حسین نواز نے اپنے والد کو 21 لاکھ ڈالر بھجوائے۔
میاں نواز شریف کا مؤقف
میاں نواز شریف نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر اپنی اپیلوں میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات کے مقدمے کے لیے استغاثہ کو پہلے معلوم ذرائع آمدن بتانا ہوتے ہیں جو اس نے نہیں بتائے۔ پھر جس اثاثے کے بارے میں سوال اٹھایا جاتا ہے اس کی قیمت کے بارے میں عدالت کو بتایا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ یہ کس طرح آمدن سے زائد ہیں۔ لیکن نیب نے یہ کام بھی نہیں کیا۔
اپیلوں میں کہا گیا کہ نیب کہیں ثابت نہیں کر سکا کہ میاں نواز شریف نے اپنے 37 سالہ سیاسی سفر میں کہیں بھی کوئی کرپشن کی۔ اسی طرح سے اپیلوں میں کہا گیا کہ بے نامی جائیداد کو ثابت کرنے کے لیے بھی ایک قانونی طریقہ کار موجود ہے جس پر نیب نے عمل درآمد نہیں کیا۔