30 اکتوبر کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سندھ سیکریٹریٹ پر راکٹ لانچر سے حملہ کرنے والے ملزمان کو 29 برس بعد با عزت بری کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق 1995 میں ایم کیو ایم کی جانب سے سندھ سیکریٹریٹ پر راکٹ لانچر سے حملے کے کیس میں اے ٹی سی عدالت نے 29 برس بعد مقدمے کا فیصلہ سنا دیا۔ استغاثہ بدنام زمانہ ٹارگٹ کلرز سعید بھرم و دیگر پر جرم ثابت کرنے میں ناکام ہو گئی، اور عدالت نے سعید بھرم، فہیم مرچی اور ناصر کھجی کو باعزت بری کر دیا۔ عدالت نے حکم جاری کیا کہ ملزمان کسی اور مقدمے میں نامزد نہیں ہیں تو انھیں رہا کیا جائے۔ پراسکیوشن کا کہنا تھا کہ ملزمان نے 1995 میں سندھ سیکریٹریٹ پر راکٹ لانچر سے حملہ کیا تھا، جس میں اس وقت کے وزرا نثار کھوڑو سمیت دیگر کے دفاتر تباہ ہو گئے تھے۔ ملزمان کو رینجرز نے 2016 میں، یعنی مقدمہ درج ہونے کے تقریبا 21 سال بعد گرفتار کیا تھا اور گرفتاری کے وقت ان کے قبضے سے دھماکہ خیز مواد اور اسلحہ بھی برآمد کئے جانے کا دعویٰ کیا تھا۔
دعوے کا لفظ اس لیے استعمال کیا کیونکہ ان ملزمان پر دھماکہ خیز مواد رکھنے کا الزام بھی ثابت نہ ہوسکا۔ دوران سماعت عدالت کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ملزمان نے بھارت کے شہر فرید آباد میں دہشت گردی کی تربیت حاصل کی، جنہیں ایم کیو ایم لندن کے جاوید اور اجمل پہاڑی بھارت لے کر گئے۔ (یاد رہے کہ اجمل پہاڑی بھی کئی سال قبل گرفتار ہو نے کے بعد ضمانت پر رہا ہو چکا ہے)۔ دوران سماعت عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ ملزمان نے جےآئی ٹی کے سامنے بھارت سے دہشت گردی کی تربیت حاصل کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ تفتیشی افسر نے ملزمان کے خلاف گزشتہ سماعت پر 2 چالان انسداد دہشت گردی کی عدالت کے روبرو پیش کیے تھے جس میں عدالت کو بتایا گیا تھاکہ ملزمان نے 1992 میں ایم کیوایم کے خلاف آپریشن کا بدلہ لینے کے لیے 1995میں سندھ اسمبلی اور سندھ سیکرٹریٹ پر حملے کیے جس سے مذکورہ عمارتوں کو نقصان پہنچا۔ یکم اکتوبر2018 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ہی متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے ان مبینہ بھارتی خفیہ ایجنسی را سے تربیت یافتہ ملزمان فہیم عرف مرچی، ناصر کھجی، سعید بھرم اور ریاض عرف لکڑ کو 21/21 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ جبکہ عدالت نے مقدمہ میں مفرور ملزمان فیروزعرف فوجی، اختر شیخ عرف شیخ، حبیب لنگڑا، اور عارفین کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے۔
یوں تو اس ملک میں نظام انصاف کی حالت سب کے سامنے ہے لیکن ایک ایسے مقدمے میں کہ جس میں ملزمان کو 21 سال کی شب و روز محنت کے بعد پکڑا گیا ہو تو یقیناً کچھ مضبوط شواہد کی بناء پر ہی ایسا کیا گیا ہو گا۔ لیکن پھر 29 سال تک یہ مقدمہ ایک ایسی عدالت میں زیر سماعت رہا جو بنائی ہی اس مقصد کے لئے گئی تھی کہ ہر دہشت گردی کے مقدمے کا فیصلہ جلد از جلد کیا جائے۔ بالآخر عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ ملزمان بے قصور ہیں اور انہیں ”با عزت“ بری کر دیا گیا۔
لیکن اپنے فیصلے میں نہ تو عدالت نے یہ بتایا کہ 29 سال کے عرصے میں جب یہ ملزمان ہر پیشی پر عدالت میں پیش ہوتے تھے تو ان کی اس بے عزتی کا حساب کون دے گا؟ نہ کسی سرکاری ادارے یا افسر پرجھوٹا مقدمہ بنانے کی ذمہ داری عائد کی، نہ ہی عدالت نے اس مقدمے کے 29 سال تک چلنے کی کوئی وجہ پیش کی۔ سب سے اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب یہ تینوں بھی مجرم ثابت نہ ہوسکے تو پھر آخر وہ کون لوگ تھے جنہوں نے اس وقت سندھ سیکریٹریٹ پر راکٹ برسائے؟؟
اس پر تو بعد میں بحث کی جائے گی کہ یہ ملزمان اگر واقعی اصل ملزمان تھے تو پھر کسی کی ”مجرمانہ کوتاہی“ کی وجہ سے بری کر دیئے گئے۔ میں یہ بھی واضح کردوں کہ میں کسی بھی طرح کسی دہشت گرد، قاتل، بھتہ خور کا دفا ع نہیں کر رہا لیکن اب چونکہ معزز عدالت انہیں با عزت بری کر چکی ہے اس لئے ان”با عزت“ بری ہوجانے والے مرچی، کھجی اوربھرم وغیرہ کا کوئی عزت دار نام رکھنے کی کوشش کر رہا ہوں کیونکہ بظاہر انہیں ایک ہائی پروفائل مقدمے میں بنا کسی ثبوت کے گرفتار کر کے 29 سال تک نہ صرف عدالت میں دھشت گرد بنا کر پیش کیا جاتا رہا بلکہ انڈیا کی خفیہ ایجینسی ”را“ کا ایجنٹ ہونے کا دعوی بھی کیا جاتا رہا۔
ان 29 سالوں میں ان پر تو جو گذری سو گذری لیکن ان کے خاندانوں پر کیا گذری ہوگی جنہیں ان کے دوست احباب اور عزیز و اقارب دہشت گردوں اور ”را“ کا ایجنٹ ہونے کا طعنہ دیتے ہوں گے۔ 2016 میں گرفتاری کے بعد جتنا عرصہ انہوں نے جیل میں گذارا اس کا حساب کون دے گا؟ بالفرض انہیں اس کیس میں عمر قید کی سزا بھی سنا دی گئی ہوتی جو عموما 25 سال پر محیط ہوتی ہے اور ان 25 سالوں میں بھی شب و روز ملا کر اور حکومت کی جانب سے مختلف تہواروں کے موقع پر سزاوں میں دی جانے والی رعائتوں کے بعد 25 سال سے بھی کم رہ جاتی ہے تو اگر عمر قید ہو بھی جاتی تب بھی انہوں نے اپنی سزا کا وقت پورا کر لیا ہوتا۔
ایسے بے شمار مقدمات ہیں جن میں ملزمان کی گرفتاری کے وقت بہت بلند و بانگ دعوے کئے گئے، انہیں ہائی پروفائل دہشت گرد بتایا گیا، را کا ایجنٹ بتایا گیا، بے شمار ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ملوث ظاہر کیا گیا، ان کے سروں پر لگائی جانے والی خطیر رقم پولیس افسرا ن میں تقسیم کر دی گئی لیکن بعد ازاں جب انہیں عدالتوں میں پیش کیا گیا تو وہ با عزت بری کر دئیے گئے۔ جس کی مثال کراچی میں درج ہونے والا ایک اور مشہور مقدمہ ہے جس میں اکتوبر2016 میں اس وقت کے ایس ایس پی ملیر کی جانب سے بھارتی خفیہ ایجنسی سے تعلق رکھنے کے الزام میں گرفتار ایم کیو ایم کے 3 کارکنان طاہر لمبا، جنید اور امتیاز کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ناکافی شواہد کی بنیاد پر باعزت بری کردیا تھا۔
29 اپریل 2015 کو گلشنِ معمار میں چھاپہ مار کر ایم کیو ایم کے 3 کارکنان کو بھارتی خفیہ ایجنسی را سے ٹریننگ لینے اور تعلقات کے الزام میں گرفتار کیا اور ملزمان پر دھماکہ خیز مواد اور غیر قانونی مواد رکھنے کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ لیکن ایک سال بعد ہی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ایم کیو ایم کے ان تینوں کارکنان کو ناکافی شواہد کی بنیاد پر باعزت بری کرتے ہوئے فوری طور پر رہا کرنے کے احکامات جاری کیے۔ گو کہ تینوں ملزمان کی گرفتاری کے بعد پولیس کی جانب سے ایک سنسنی خیز پریس کانفرنس منعقد کی گئی جس میں اس وقت کے ایس ایس پی ملیر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ملزمان نے بھارتی خفیہ ایجنسی سے ٹریننگ حاصل کی تاکہ پاکستان میں دہشت گردی کی جاسکے۔ انہوں نے مزید کہا تھاکہ ملزمان نے دیگر ایم کیو ایم کے کارکنان کو بھی بھارت ٹریننگ کے لیے بھیجا۔
تو کیا اب یہ را سے تربیت یافتہ ملزمان یونہی کھلے عام گھومتے رہیں گے؟ اور اگر ایسا نہیں تھا تو ان کی ساکھ کو جو نقصان پہنچا اس کا ازالہ کون کرے گا؟ ایسے ملزمان کی رہائی کے 2 بڑے ذمہ داران ہیں، پہلا اس کا تفتیشی افسر اور دوسرا پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ، جن کے کردار کے بارے میں کسی اور بلاگ میں تفصیلاً تحریر کیا جائے گا۔