سندھ حکومت جرائم میں ملوث، گزشتہ 5 سال میں 700 ارب روپے کی کرپشن کی، سابق ایس ایس پی راؤ انوار

پیر 11 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سابق ایس ایس پی راؤ انوار نے انکشاف کیا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے گزشتہ 5 سال میں 700 ارب روپے کی کرپشن کی اور یہ سارا پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک سے باہر بھجوایا۔

سما نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق پولیس افسر راؤ انوار نے کہا کہ سندھ حکومت اور اس کے کرپشن کے سسٹم سے جڑے کئی لوگوں نے مل کر یہ کرپشن کی اور یہ سارا پیسہ کینیڈا، ترکیہ، دبئی، لندن، امریکا کے علاوہ چین میں بھی بھیجا گیا۔ انہوں نے کہا کہ  2018-19 میں جے آئی ٹی میں پیپلز پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عاصم منی لانڈرنگ کیس میں پکڑے گئے جس میں یہ ثابت ہوا کہ یہ لوگ جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اتنا پیسہ ملک سے باہر لے گئے ہیں، جعلی اکاؤنٹس سے ہی بلاول ہاؤس کے کھانوں اور کیک کی ادائیگی کی گئی۔

کراچی کی زمینوں پر قبضے کیسے ہوئے؟

اویس مظفر ٹپی سے متعلق سابق ایس ایس پی راؤ انوار کا کہنا تھا کہ اویس مظفر ٹپی کو اختیارات دیے گئے تھے اور وہ زمینوں پر قبضے کیا کرتا تھا، اس کا اپنا ایک گروپ تھا لیکن بعد میں سابق صدر آصف علی زرداری کے ان کے ساتھ اختلافات ہوئے تو انہوں نے مظفر ٹپی کو نکال دیا۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ نہیں اور یہاں زیادہ تر زمینیں پارسی، ہندو، گبول اور جوکھیو اور بلوچ برادری کے علاوہ مہاجرین کو کلیم میں ملنے والی زمینیں تھیں، اس کے علاوہ یہاں کسی کی زمین نہیں تھی لیکن پیپلز پارٹی کے لوگوں نے یہاں زمینوں کا ریکارڈ ختم کرے نئے ریکارڈ بنائے، یہ لوگ معاشی دہشتگرد ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 2013 سے 2018 تک سندھ میں رینجزز نے آپریشن کیا جس میں ڈاکٹر عاصم کی طرح پیپلز پارٹی کے اور لوگ بھی پکڑے گئے جس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ پیپلز پارٹی جرائم کو کنٹرول کرنے کے بجائے خود ان جرائم کا حصہ بنی۔ 2013 تک کراچی کے حالات بہتر تھے لیکن اب پولیس کے ذریعے ڈکیتی، اغوا اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں کروائی جاتی ہیں، لوگوں کی زمینوں اور پلاٹوں پر پولیس کی مدد سے قبضے کیے جاتے ہیں اور کوئی کچھ نہیں کرپاتا۔

بینظیر بھٹو اور موجودہ پیپلز پارٹی کی سوچ میں کیا فرق ہے؟

راؤ انوار کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو کے اس دور حکومت اور گزشتہ 15 سال سے سندھ میں برسراقتدار پیپلز پارٹی کی حکومت کے درمیان فرق ہے، موجودہ پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے ٹریک سے ہٹ گئی ہے، اب صرف اور صرف پیسے کی سیاست ہے جس میں شخصیات کو خریدنے، پیسہ کمانے کا سسٹم بنانے، زمینوں پر قبضے کرنے اور اپنی مرضی کے لوگوں کو عہدے دینے کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کراچی کے حالات کی ذمہ دار سندھ حکومت ہے، لوگوں کو بھی اس بات پر غور کرنا چاہیے اور ایسی حکومت کو ووٹ نہیں دینا چاہیے۔

کراچی میں سسٹم کون چلاتا ہے؟

ایک سوال کے جواب میں راؤ انوار نے بتایا کہ کراچی کے سسٹم کے اصل سربراہ سابق صدر آصف علی زرداری ہیں، ان کے بعد یونس میمن ہیں کینیڈا بھاگ گئے تھے اور وہاں سے سسٹم چلاتے رہے، یہ سسٹم 50 سے 60 لوگوں پر مشتمل ہے جس کے آگے مزید کئی سسٹمز ہیں اور یہ نہایت منظم گروہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ لوگ اس لیے نہیں پکڑے جاتے کیونکہ تمام محکموں میں ان کے اپنے لوگ موجود ہیں، یہ لوگ روزانہ کی بنیاد پر اربوں روپے بناتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آصف زرداری اور بھٹو خاندان کی جائیدادوں اور دیگر اثاثوں میں بےپناہ اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 2008 سے 2013 تک آصف زرداری کا عزیر بلوچ سے ملنا جلنا نہیں تھا البتہ رحمٰن ڈکیت سے ان کی دوستی تھی، عزیر بلوچ کا زیادہ تعلق ذوالفقار مرزا سے تھا اور وہ اس بات کا اقرار بھی کرتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں راؤ انوار نے کہا کہ آصف زرداری کا ملازم مشتاق جو انہیں کھانا اور دوا وغیرہ دیتا تھا، ایان علی کو ایئرپورٹ بھی اسی نے چھوڑا تھا، اس کے اکاؤنٹ میں بحریہ ٹاؤن کے زین ملک کی جانب سے 8 ارب روپے بھیجے جاتے ہیں، اس وقت مشتاق دبئی میں تھا اور جب یہ پیسہ پکڑا گیا تو انہوں نے مشتاق کو دبئی سے لندن بھیج دیا اور جے آئی ٹی کو بتایا کہ وہ ان کا مینیجر تھا۔ راؤ انوار نے کہا کہ اگر کسی کے پاس 8 ارب روپے ہوں تو کیا وہ کسی کی بطور مینیجر بھی ملازمت کرے گا، ان کے پاس ایسے کئی لوگ ہیں جو منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں۔

بینظیر بھٹو کی سیکیورٹی کے لیے افراد کا انتخاب کس نے کیا؟

سانحہ 18 اکتوبر سے متعلق سابق ایس ایس پی راؤ انوار کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو کی وطن واپسی اور ریلی کے حوالے سے سیکیورٹی کے اچھے انتظامات تھے، پیپلز پارٹی کے ذوالفقار مرزا اس کو دیکھ رہے تھے مگر پھر بھی ریلی میں دھماکا ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعہ کو 15 سال ہوگئے ہیں اور پیپلز پارٹی کی حکومت کو بھی اتنا ہی عرصہ ہوگیا ہے، اس واقعہ کی ایف آئی آر بہادر آباد تھانے میں رجسٹرڈ ہے مگر آج تک ایک شخص کو بھی ان دھماکوں کے الزام میں نہیں پکڑا گیا۔

راؤ انوار نے بتایا کہ راولپنڈی میں بینظیر بھٹو کی سیکیورٹی پر مامور خالد شہنشاہ اور بلال شیخ جیسے افراد کریمینل ریکارڈ رکھتے تھے، بینظیر بھٹو کی سیکیورٹی کے لیے ان تمام افراد کو آصف زرداری نے منتخب کیا تھا۔

پرویز مشرف کا کوئی قصور نہیں تھا

بینظیر بھٹو قتل کیس میں بننے والی جے آئی ٹی میں اپنے شامل نہ ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے راؤ انوار نے بتایا کہ وہ رپورٹ غلط تھی، بینظیر بھٹو کے قتل میں پرویز مشرف، ڈی آئی جی سعود عزیز، خرم شہزاد کا کوئی قصور نہیں تھا، جو اصل 3 ملزمان تھے انہیں چھوڑ دیا گیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp