ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے اپنی قومی کرپشن کا تناظری سروے2023 میں ذکر کیا ہے کہ عدلیہ پاکستان کے 3 کرپٹ ترین اداروں میں سے ایک ہے۔ رپورٹ کے مطابق پولیس سب سے زیادہ کرپٹ ہے، اس کے بعد کٹریکٹ اور ٹھیکے لینے کا شعبہ اور پھر عدلیہ ہے۔ گو کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل ایک معتبر ادارہ ہے جو یقیناً تحقیق اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی رپورٹس شائع کرتا ہے۔ میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ پولیس کرپٹ ترین محکموں میں سے ایک محکمہ ہے لیکن اسے سب سے زیادہ کرپٹ ادارہ قرار دینا مناسب نہیں لگتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پولیس افسران ہوں یا کسی اور محکمے کے افسران ان میں سے تمام لوگ بے ایمان نہیں ہوتے، اگر بدعنوان لوگوں کی فہرست نکالی جائے تو ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔
چند ماہ قبل ایک صاحب کا کالم پڑھا جس میں انہوں نے پنجاب کے ایک ڈی آئی جی کا ذکر کیا جس کی شکاگو میں جائیدادیں ہیں۔ دیکھا جائے تو صرف پولیس افسر ہی نہیں، کتنے سینئر بیوروکریٹس کی ملک سے باہر کوئی نہ کوئی پراپرٹی ہو گی۔ اگر اس ملک کے ‘تحقیقاتی ادارے’ اپنے حلف اور مینڈیٹ کے مطابق ایمانداری سے تحقیقات کریں تو ان بیوروکریٹس اور افسران کی اکثریت لاکھوں مالیت کے فونز کا حساب بھی نہیں دے سکتی جو ان کے زیر استعمال ہوتا ہے۔ کیونکہ یہاں جو بھی اُن کو پیارا ہو جاتا ہے اس کو 7 خون معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال چند روز قبل ایک سابقہ پولیس افسر کا وہ انٹرویو ہے جس میں انہوں نے سندھ کی ایک بظاہر بڑی پارٹی پر کرپشن کے سنگین الزامات لگائے ہیں۔ یہ اپنے وقت کے وہ افسر ہیں جن کے بارے میں مشہور تھا کہ ہر پوسٹنگ اپنی مرضی کی لیتے ہیں اور جب تک مرضی ہو اس پر براجمان رہتے ہیں۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ سندھ کی ایک طاقتور سمجھی جانے والی سیاسی شخصیت کا ہمیشہ ان کے سرپر ہاتھ رہا ہے۔
میں یہاں واضح کر دوں کے میں اس سیاسی پارٹی کا نہ تو کارکن ہوں اور نہ ہی اس کے لئے کوئی نرم گوشہ رکھتا ہوں لیکن اگر میں یہ انٹرویو لے رہا ہوتا تو ان سے بہت ادب سے یہ ضرور پوچھتا کہ ”جناب کچھ اپنے بارے میں بھی عرض کریں کہ جس عہدے سے آپ ریٹائر ہوئے ہیں اس کی ماہانہ تنخواہ تمام الاؤنسسز ملا کر بھی شاید 2 لاکھ روپے نہ ہو لیکن آپ کے شاہانہ طرز زندگی سے تو ایسا نہیں لگتا کہ آپ ایک سرکاری ملازم رہے ہیں“۔ یہ بھی بتا دیتے کہ ان کے انکشاف کے مطابق بلاول ہاؤس کو جو ‘کیک’ بجھوائے جاتے تھے وہ بھیجنے والے کون تھے؟ ایسا لگتا ہے جس نے ان کا انٹرویو ریکارڈ کیا یا تو اس کا ‘ہوم ورک’ مکمل نہیں تھا یا پھر اسے بتا دیا گیا تھا کہ کون کون سے سوالات کرنے ہیں۔ یہاں مجھے ایک بہت معروف مقولہ بہت یاد آ رہا ہے کہ ”پولیس والے کی دوستی بھی بری، اور دشمنی بھی بری“۔
آتے ہیں اپنے اصلی موضوع کی جانب، یہ صرف پولیس ہی نہیں ہے جو ‘کرپٹ ترین’ ہے بلکہ محکمہ خزانہ، ریوینیو، کسٹمز، انکم ٹیکس، آبپاشی اور دیگر بے شمار محکمے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ لیکن چونکہ بد قسمتی سے پولیس اہلکار وردی میں ملبوس، سڑکوں اور چوراہے پر چیکنگ کے بہانے روزانہ کی بنیاد پر عوام سے کہیں کم اور کہیں زیادہ رشوت وصول کرتے نظر آتے ہیں اس لئے زیادہ بدنام ہیں۔ میں تو سیاست کو بھی ایک محکمہ ہی سمجھتا ہوں کہ ہر چند سال بعد وہی چہرے روپ بدل بدل کر آتے ہیں، سرکاری اہلکارو ں کی مدد سے ایسی کرپشن کرتے ہیں کہ جس کی کسی اور محکمے میں مثال نہیں ملتی۔ سرکاری محکموں کی طرح اس محکمے میں بھی آنے کے لیے پہلے پلے سے خوب خرچ کیا جاتا ہے اور پھر وزیر، مشیر اور سینیٹر کے عہدوں پر بیٹھ کر ہوشربا کرپشن کی جاتی ہے۔ پولیس کی کرپشن پکڑی جاتی ہے لیکن جن محکموں کا میں نے اوپر ذکر کیا ان کی کرپشن پکڑی نہیں جاتی کیونکہ ان کی بدعنوانی کی تشہیر نہیں ہو پاتی۔ ساری توپوں کا رخ پولیس کی جانب ہی رہتا ہے۔ کوئی کسی کسٹم افسر سے، مختیارکار سے، انکم ٹیکس افسر سے یہ نہیں پوچھتا کہ سرکاری تنخواہ میں اتنی عیاشیاں کیسے کر لیتے ہو؟
نئے آرمی چیف کی جانب سے دیئے گئے سخت احکاما ت کے بعد مختلف سیکٹرز میں بہت شدت سے کریک ڈاؤن شروع کیا گیا تھا لیکن آہستہ آہستہ پولیس کی ایک ضرب المثل کے مطابق ‘جیسے تھے’ والی پوزیشن دوبارہ بنتی جا رہی ہے۔ کرپشن کا یہ گندہ خون اس سسٹم کی رگ رگ میں سما گیا ہے اور اب خون کو مکمل بدلنے سے ہی حالات بہتری کی جانب جا سکتے ہیں جو کہ موجودہ حالات میں ناممکن نظر آتا ہے۔
کرپشن اور کرپٹ سرکاری افسران کے خلاف کاروائی اب محض ایک خواب ہی لگتا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ کرپشن کے خلاف مناسب قوانین اور ادارے موجود ہیں جن کے پاس ان کرپٹ افسران کی تمام کرپشن کے ثبوت بھی موجود ہیں لیکن وہ ثبوت انہیں صرف اس وقت دکھائے جاتے ہیں یا عوام کے سامنے لائے جاتے ہیں جب ان افسران میں سے کوئی ‘سرکار’ کے دئیے ہوئے کسی حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھے۔
صوبائی انسداد رشوت ستانی(Anti Corruption Establishment) اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (FIA) یا قومی احتساب بیورو(NAB) کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ شاید ایک فیصد سے بھی کم کسی گزیٹیڈ افسر کو کرپشن کے چارجز پر سزا کروائی جاسکی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران و ملازمان کے خلاف اینٹی کرپشن اسٹبلشمنٹ سندھ میں 100 سے شکایات جمع کروائی گئیں جو غیر قانونی تعمیرات سے متعلق تھیں اور جن کا منہ بولتا ثبوت ایسی غیر قانونی عمارتیں از خود تھیں لیکن آج تک کسی ایک بھی انکوائری کا میرٹ پر فیصلہ نہ ہو سکا۔
سابقہ ڈی جی ایس بی سی اے، جو گذشتہ دنوں واپس آئے، انہیں پورا ڈرامہ رچا کر پہلے جیل بھجوایا گیا اور پھر ضمانت پر باہر لایا گیا۔ ان کے وقت میں کسی اینٹی کرپشن افسر کی جرات نہیں تھی کہ وہ ایس بی سی اے کے کسی افسر کو طلبی کا نوٹس بھی بھیج سکے۔ چند ماہ قبل کسٹمز کے کچھ افسران عتاب میں آئے اور ان کے خلاف ایف آئی آرز بھی درج ہوئیں، الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں ان کی بدعنوانی سے کمائی گئی دولت کا بہت چرچا کیا گیا لیکن اب وہ معاملہ بھی ٹھنڈا پڑ چکاہے۔
کچھ عرصے بعد شاید یہ تمام افسران ‘با عزت بری’ بھی ہو جائیں کیونکہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ یہ بھی انکشاف کر چکی ہے کہ کرپٹ ترین محکمہ جات میں ایک عدلیہ بھی ہے۔ نیب کے ایک حالیہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ”نامعلوم درخواست پر کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی“، چلیں جان چھوٹی۔ یعنی اب نیب بھی اس انتظار میں ہے کہ کوئی شخص آئے اور کسی سرکاری افسر کے خلاف شکایت درج کروائے تو وہ اس کے اثاثہ جات کی انکوائری شروع کرے گا۔ جب کہ نیب کا ادارہ بنایا ہی اس لئے گیا ہے کہ وہ ہر قسم کی بدعنوانی پر نظر رکھے اور اس کے خلاف مناسب کاروائی کرے۔
آپ نامعلوم درخواست پر کاروائی نہیں کرسکتے لیکن اس درخواست میں درج کیے گئے الزامات کی اپنے طور پر خفیہ انکوائری تو کروا سکتے ہیں جو آپ کے مینڈیٹ میں بھی شامل ہے۔ یہ تحریر لکھنے کا واحد مقصد یہ تھا کہ صرف ایک یا 2 محکموں کو نشانے پر نہ رکھ لیا جائے۔ یہ پورا نظام ہی کرپٹ ہو چکا ہے۔ جس کو موقع ملتا ہے وہ اپنا حصہ الگ نکال کر رکھ لیتا ہے۔ اس نظام کی رگوں میں دوڑتے ہوئے اس گندے خون کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے ایماندار اور ماہر طبیب کی ضرورت ہے جو اس ملک میں ملنا ناممکن تو نہیں، بے حد مشکل ضرور ہے۔