اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کیخلاف دائر درخواست پرسماعت کے بعد سپریم کورٹ نے جنرل ریٹائرڈ فیض حمید، بریگیڈیئر ریٹائرڈ عرفان رامے، سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ محمد انور کاسی سمیت سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب محمد عارف کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔
شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کیخلاف کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائزعیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے کی، جس میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت بھی شامل تھے۔
عدالت کا موقف تھا کہ 3 افراد جنہیں شوکت عزیز صدیقی نے فریقین بنایا تھا ان کا براہ راست تعلق نہیں، جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ، سابق طاہر وفائی، اور بریگیڈیئر فیصل مروت کو نوٹس جاری نہیں کیا گیا، کیس کی مزید سماعت تعطیلات کے بعد تک ملتوی کردی گئی ہے۔
دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیے کہ شوکت صدیقی 62 سال سے اوپر ہو چکے واپس بحال تو نہیں ہو سکتے، مقصد صرف پینشن ہے تو ٹھیک ہے وہ مل جائے گی ہم کسی کو بلانے کی زحمت کیوں دیں، اگر پاکستان کی تاریخ درست کرنا چاہتے ہیں تو بتا دیں ہم آپ کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کیا درست ہیں؟ انہیں انہی الزامات پر مبنی کی گئی تقریر پر برطرف کیا گیا، سوچ کر جواب دیں کہ کیا آپ کے الزمات درست ہیں،کیا وہ جنرل جن کو آپ فریق بنانا چاہتے ہیں وہ خود 2018 کے انتخابات میں اقتدار میں آنا چاہتے تھے۔
سہولت کاری کا بینیفشری کون؟
چیف جسٹس بولے؛ اگر شوکت عزیز صدیقی کے الزامات درست ہیں تو وہ جنرلز کسی کے سہولت کار بننا چاہ رہے تھے، جن کی یہ جنرل سہولت کاری کر رہے تھے وہ کون تھا، اس موقعہ پر شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان کا موقف تھا کہ ان کے موکل کی جانب سے عائد الزامات درست ہیں۔ چیف جسٹس بولے آپ ہمارے سامنے آرٹیکل 184/3 کے تحت آئے ہیں، یہ بھی یاد رکھیں کہ اصل دائرہ اختیار کے تحت کیا ہو سکتا ہے،
شوکت عزیز صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ سہولت کاروں کو فریق بنا رہے ہیں، اصل بینیفشری تو کوٸی اور ہے، آپ نے درخواست میں اصل بنیفشری کا ذکر ہی نہیں کیا، آپ نے لوگوں کی پیٹھ پیچھےالزامات لگاٸے، جن پر الزامات لگاٸے گٸے وہ کسی اور کے لیے سہولت کاری کر رہے تھے، سہولت کاری کرکے کسی کو تو فاٸدہ پہنچایا گیا۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ آٸین پاکستان کی پاسداری نہ کرکے وہ اس جال میں خود پھنس رہے ہیں، سہولت کاروں کو فریق بنا لیا ہے تو فائدہ اٹھانے والے کو کیوں نہیں بنایا، جس پر شوکت عزیز صدیقی بولے؛ فائدہ کس نے لیا ایسی کوئی بات تقریر میں نہیں تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 184/3 کی درخواست میں عدالت کا اختیار شروع ہوچکا ہے، فوجی افسر کسی کو فائدہ دے رہے تو وہ بھی اس جال میں پھنسے گا، جس پر وکیل حامد خان بولے؛ فوج شاید مرضی کے نتائج لینا چاہتی تھی، جواباً چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک امیدوار کو سائیڈ پر اسی لیے کیا جاتا ہے کہ من پسند امیدوار جیتے۔
فوج کے امیدواروں کا نشان جیپ تھا، شوکت عزیز صدیقی
شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ فوج نے اپنے امیداواروں کو جیپ کا نشان دلوایا تھا، اس موقع پر چیف جسٹس بولے؛ کبھی تو ملک میں سچ کی جان جانا ہی ہے، جس پر وکیل حامد خان نے لقمہ دیا کہ 70 سال سے ملک میں یہی ہو رہا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا 70 سال سے جو ہورہا ہے اس کا ازالہ نہ کریں، جبکہ چیف جسٹس قاضی فائزعیسی کا کہنا تھا کہ فوج ایک آزاد ادارہ ہے یا کسی کے ماتحت ہے، فوج کو چلاتا کون ہے، وکیل حامد خان بولے؛ فوج حکومت کے ماتحت ہے۔
جواباً چیف جسٹس بولے؛ حکومت فرد نہیں ہے، جو شخص فوج کو چلاتا ہے اس کا بتائیں، جب آپ ہمارے پاس آئیں گے تو ہم آئین کے مطابق چلیں گے، یہ آسان راستہ نہیں ہے، شوکت عزیز صدیقی نے جو سنگین الزامات لگائے انکے نتائج بھی سنگین ہوں گے، سپریم کورٹ کو کسی کے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی تائیدی الفاظ میں کہا کہ ہمارے کندھے استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، چیف جسٹس بولے؛ ہم کسی ایک فریق کی طرف داری نہیں کریں گے، اس موقع پر وکیل بار کونسل صلاح الدین نے کہا کہ سابق جج نے اپنے تحریری جواب میں جن لوگوں کا نام لیا ہم انہیں فریق بنا رہےہیں۔
وکیل صلاح الدین نے موقف اختیار کیا کہ شوکت عزیز صدیقی نے بانی پی ٹی آئی سمیت کسی اور کو فائدہ دینے کی بات نہیں کی۔ مفروضے پر ہم کسی کو فائدہ پہنچانے کیلئے کسی کا نام نہیں لے سکتے، جس پر چیف جسٹس بولے؛ اس کا مطلب ہے کہ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات بھی مفروضے پر مبنی ہیں۔
ہمیں نہ بتائیں کہ انکوائری کریں یا یہ کریں، چیف جسٹس
بار ایسوسی ایشن کے وکیل صلاح الدین سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا کسی کا بھی نام لکھ دیں تو اسے نوٹس کردیا جائے، کیا شوکت صدیقی بیرسٹر صلاح الدین کا نام لکھ دیں تو آپ کو بھی نوٹس کر دیں، کیا ہمارے کندھے استعمال کرنا چاہ رہے ہیں، نوٹس جاری کر کے بلاوجہ لوگوں کو تنگ بھی نہیں کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کس سیاسی جماعت کو نکالنے کے لیے یہ سب ہوا، جس بیرسٹر صلاح الدین احمد بولے؛ عدالتی نظام پر دباؤ ڈال کر نواز شریف کو نکالا گیا، جس پر چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ اس سے فائدہ کس کا ہوا، کیا سندھ بار یا اسلام آباد بار کو فائدہ دینے کے لیے یہ ہوا، اس موقع پر بیرسٹر صلاح الدین بولے؛ ہم نے انکوائری کی درخواست کی تا کہ حقائق سامنے آئیں۔
چیف جسٹس نے واضح کیا کہ اگر سندھ بار شوکت صدیقی کی ہمدردی میں آئی کہ ان کو پینشن مل سکے تو یہ /3184 کا دائرہ کار نہیں بنتا، ہمیں نہ بتائیں کہ انکوائری کریں یا یہ کریں، آپ معاونت کریں جو کرنا ہے ہم کریں گے، جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ مسئلہ یہ کہ عدالتی نظام کو استعمال کرنے کا الزام ہے، ہمارے بندے کو استعمال کر کے کیوں کہا گیا کہ نواز شریف انتخابات سے پہلے باہر نہ آئے۔
اس موقع پر بیرسٹر صلاح الدین بولے؛ یہ الزام فیض حمید پر ہے، جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پھر بار کونسلز کیوں اس کیس میں آئیں، بیرسٹر صلاح الدین بولے؛ ہم تحقیق چاہتے ہیں کہ کیا واقعی شوکت صدیقی کی برطرفی بانی پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہوئی۔
اگر پاکستان کی تاریخ درست کرنا چاہتے ہیں تو بتا دیں، چیف جسٹس قاضی فائزعیسی
چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے ریمارکس دیے کہ ہم طریقے سے چلیں گے، شوکت صدیقی 62 سال سے اوپر ہو چکے واپس بحال تو نہیں ہو سکتے، مقصد صرف پینشن ہے تو ٹھیک ہے وہ مل جائے گی ہم کسی کو بلانے کی زحمت کیوں دیں، اگر پاکستان کی تاریخ درست کرنا چاہتے ہیں تو بتا دیں ہم آپ کی مدد کرنے کو تیار ہیں، سسٹم میں شفافیت لا رہے ہیں 10 سال پرانے کیسز مقرر کر رہے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ آپ کہتے ہیں یہاں لوگ آلے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، آلے کے طور پر استعمال کون کرتا ہے، ماضی میں جو ہوتا رہا وہ سب ٹھیک کرنا ہے، وکیل حامد خان بولے؛ آپ نے اسٹیبلشمنٹ کا نام لینے سے روکا جب کہ اس ملک کی حقیقت یہی ہے، جس پر چیف جسٹس نے سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے منہ میں الفاظ نہ ڈالیں، یہ آئینی عدالت ہے یہاں آئینی زبان استعمال کریں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیے کہ ہمارا موقف واضح ہے کہ کہاں سیاسی دائرہ اختیار ختم اور عدالتی دائرہ شروع ہوتا ہے، تاخیر سے کیس مقرر ہونے کا الزام لگائیں ہم معذرت کریں گے، الیکشن کی تاریخ سے متعلق سیاسی جماعت کے رجوع کرنے پر ہم نے 12 روز میں فیصلہ دیا، ملک میں کب اتنی جلدی کیس کا فیصلہ ہوا ہے، ہم نے آئینی اداروں کو انتخابات کی ذمہ داری پوری کرنے کا حکم دیا۔
اب آپ خود معاملہ الیکشن 2018 تک لے آئے ہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیے کہ مسئلہ یہ ہے کوئی ادارہ اپنا کام کرنے کو تیار نہیں، شوکت عزیز صدیقی نے زیادہ نام فیض حمید کا لیا ہے، قمر باجوہ سے متعلق گفتگو تو سنی سنائی ہے، قمر باجوہ نے شوکت عزیز صدیقی سے براہ راست کوئی بات نہیں کی تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیاکہ کیا چیف جسٹس ہائی کورٹ نے وہ بینچ بنایا تھا جو فیض حمید چاہتے تھے، جس پر وکیل حامد خان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جو فیض حمید چاہتے تھے وہ ہوا، فیض حمید چاہتے تھے الیکشن 2018 سے پہلے نوازشریف کی ضمانت نہ ہو، جس پر چیف جسٹس بولے؛ اب آپ خود معاملہ الیکشن 2018 تک لے آئے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ نوازشریف کی اپیل پر کیا فیصلہ ہوا جس پر وکیل حامد خان بولے؛ اپیلوں پر دیے گئے حالیہ فیصلے میں نوازشریف بری ہوگئے ہیں۔
شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے جنرل ریٹائرڈ فیض حمید، بریگیڈیئر ریٹائرڈ عرفان رامے، سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ محمد انور کاسی سمیت سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب محمد عارف کو نوٹسز جاری کر دیے۔