سابق کپتان راشد لطیف نے قومی ٹیم کی دورہ آسٹریلیا کے دوران ناقص کارکردگی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کرکٹ کو ایک منظم ڈومیسٹک اسٹرکچر بنانا ہوگا جو حکومت یا چیئرمین کی ہر تبدیلی میں تبدیل نہ ہو سکے۔ انہوں نے مزید کہا اگر 2025 میں عالمی معیار کی چیمپیئنز ٹرافی کروانی ہے تو بورڈ کو اب اپنا انفرا اسٹرکچر بہتر کرنا ہوگا۔
سابق کپتان و وکٹ کیپر بلے باز راشد لطیف نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں سب سے زیادہ مشہور ٹورنامنٹ پی ایس ایل ہے جس میں 6 فرینچائزز حصہ لیتی ہیں اور ہر فرنچائز کروڑوں روپے بورڈ کو دیتی ہے، ہر فرینچائز کی الگ الگ قیمت ہے ملتان سب سے مہنگی اور اسکے بعد کراچی اور لاہور ہیں، لیکن جب بات حصہ کی آتی ہے تو منافع سب کو برابر تقسیم ہوتا ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔
پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں سب سے زیادہ مشہور ٹورنامنٹ پی ایس ایل ہے جس میں چھ فرینچائز حصہ لیتی ہیں اور ہر فرنچائز کروڑوں روپیہ بورڈ کو دیتی ہے-
ہر فرینچایز کی الگ الگ قیمت ہے ملتان سب سے مہنگی اور اسکے بعد کراچی اور لاہور، لیکن جب بات حصہ کی آتی ہے تو منافع سب کو برابر تقسیم… pic.twitter.com/5Kuer3KuXw
— Rashid Latif | 🇵🇰 (@iRashidLatif68) December 17, 2023
انہوں نے لکھا کہ دوران پی ایس ایل ٹیمز کو پریکٹس کی کوئی خاص سہولیات موجود نہیں جس کو ہمارے اور بین الاقوامی کھلاڑی استعمال کر سکیں، بورڈ کے اپنائے ہوئے ڈرافٹ، ریٹنشن اور کیٹیگری کے رولز یا تو نامناسب ہیں یا مبہم یا نامعلوم ہیں۔ راشد خان (سلور) ہیلز (ڈائمنڈ) میں کیسے آسکتے ہیں یہ عام شائقین کے ساتھ ساتھ پیشہ ور صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی سمجھ سے بھی باہر ہے۔ اسی طرح کے رولز کی وجہ سے لیگ میں سنجیدگی کا عنصر نہ ہونے کے برابر ہے۔
مزید پڑھیں
’ہوم اینڈ اوے میچز کی گیٹ منی کی تقسیم میں بھی تضاد نظر آتا ہے، کوئٹہ اور پشاور کے ہوم گراؤنڈ نہیں ہیں حالانکہ پشاور اور کوئٹہ کے اپنے اپنے گراؤنڈ ہونا ضروری ہیں کیونکہ 8 سال ہو گئے پی ایس ایل کو شروع ہوئے، جس مقام پر پی ایس ایل کو ہونا چاہیے تھا وہ وہاں نہ پہنچ سکا برانڈ بلکہ نیچے کی جانب آیا ہے۔ تھوڑا سہارا سیروگیٹ جوئے کی کمپنیز نے دیا تھا لیکن انکے ہٹنے کے بعد فرینچائز کو اسپانسر تلاش کرنے میں بظاہر مشکلات ہو رہی ہے جو کہ فرنچائز 8 سال چلانے کے بعد آنی نہیں چاہئیں تھیں۔ چونکہ پشاور اور اسلام آباد نے اپنے آپ کو سیروگیٹ کمپنیوں سے دور رکھا اس لئیے اس معاملے میں وہ اب بھی مستحکم نظر آتی ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اچھے بین الاقوامی کھلاڑیوں کی قلت نظر آرہی ہے کیونکہ جو لوگ اس کو چلا رہے ہیں انکا زندگی میں کرکٹ سے دور دور تک کا کوئی واسطہ نہیں ہے، میرٹ نام کی چیز نظر ہی نہیں آتی اور بورڈ کو سیاسی اکھاڑا بھی کہہ سکتے ہیں اور کچھ کے لیے سونے کا انڈا دینے والی مرغی بھی کہہ سکتے ہیں۔
انہوں نے لکھا کہ ڈومیسٹک کرکٹ کی بات کی جائے تو فرسٹ کلاس اور گریڈ 2 کرکٹ میں 16 ریجن موجود ہیں لیکن فرسٹ کلاس صرف 8 ریجن کھیل سکتے ہیں۔ جن میں کراچی، لاہور، فاٹا، فیصل آباد، راولپنڈی، پشاور اور ملتان یہ فرسٹ کلاس کھیلتے ہیں جبکہ لاہور کی 2 ٹیمیں ہیں۔
’کچھ ریجن صرف گریڈ 2 کھیلتے ہیں اور کہنا یہ ہے کہ پاکستان میں اتنے کھلاڑی نہیں ہیں کہ فرسٹ کلاس کھیل سکیں۔ مطلب یہ ہوا کہ کچھ ریجن صرف ووٹ کے لیے بنائے گئے تھے جس میں ڈیرہ مراد جمالی، کوئٹہ، ایبٹ آباد ، اسلام آباد، حیدر آباد اور لاڑکانہ شامل ہیں۔ سیالکوٹ بھی گریڈ 2 ہی کھیلتا ہے جس ریجن نے درجنوں انٹرنیشل کھلاڑی پاکستان ٹیم کو دیے ہیں۔
راشد لطیف نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کرکٹ کو ایک منظم ڈومیسٹک اسٹرکچر بنانا ہوگا جو حکومت یا چیئرمین کی ہر تبدیلی میں تبدیل نہ ہو سکے۔ اور اگر 2025 میں عالمی معیار کی چیمپیئنز ٹرافی کروانی ہے تو بورڈ کو اب اپنا انفرا اسٹریکچر بہتر کرنا ہوگا، کیونکہ پاکستان میں ایک بھی بین الاقوامی طرز کا اسٹیڈیم موجود نہیں ہے، اسی لیے میرا سوال ہے کہ کیا چیمپئنز ٹرافی میچز انہی فرسودہ حال اسٹیڈیمز پر کروائے جائیں گے؟
انہوں نے کہا کہ بورڈ میں پُر خلوص لوگوں کی شاید کمی نہیں ہے لیکن اپنے کام کے ماہرین کی شدید کمی ہے جس کا نتیجہ عامیانہ سوچ اور سطحی نظر بھی ہیں۔ اہم معاملات میں اس اس بات کا ادراک تک موجود نہیں ہے کہ پاکستان کرکٹ کو دراصل کن چیزوں، کن طریقوں اور کس طرح کی قابلیت اور تجربہ رکھنے والوں کی ضرورت ہے۔ بائیو میکینکس، ڈیٹا سائنس، پچ، گراؤنڈ، براڈ کاسٹ پروڈکشن وغیرہ ان ہی میں شامل ہیں جن کے بغیر ماڈرن کرکٹ مینیجمنٹ نامکمل ہے لیکن پاکستان کرکٹ میں اب تک ان کا صحیح طور پر ادراک بھی موجود نہیں ہے۔
سابق کپتان نے کہا کہ ہمیں آسٹریلیا کی مٹی کی ضرورت نہیں بلکہ انکی کرکٹ سوچ کی ضرورت ہے، ہمیں کوئی گروہ بندی نہیں چاہیے۔ ہمارے ملک میں کسی قسم کا کوئی اسٹار کلچر نہیں ہے، اجتماعی حوصلہ نہیں دیا جاتا، مکمل عزم فراہم نہیں کیا جاتا۔ اب ہمیں یہ سوچنا ضروری ہوچکا ہے کہ ملک پہلے ہے فرنچائز نہیں۔