ریڈ لائن ۔ آن لائن ۔ لائن

بدھ 20 دسمبر 2023
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ایک زمانہ تھا کہ تحریک انصاف کی ریڈ لائن خان صاحب تھے۔ آج ساری تحریک انصاف پر ریڈ لائن لگ چکی ہے۔ کسی زمانے میں خان صاحب کی گرفتاری کا ذرا سا بھی خدشہ ہوتا تھا تو کارکنان کے زمان پارک پہنچنے کا غلغلہ بلند ہوتا تھا۔ آج زمان پارک ویران پڑا ہے اور کوئی وہاں جانے کو تیار نہیں۔

تحریک انصاف کے سوشل میڈیا جنگجوؤں نے عمران خان کی گرفتاری کو جس طرح فیس بک اور ٹوئیٹر پر روکنے کی کوشش کی، اس جلالی کوشش کا نتیجہ پہلے نو مئی کی صورت میں نکلا اور اس کے بعد خان صاحب کی حتمی گرفت کی صورت سامنے آیا۔

اب وہ زمانہ آ گیا ہے کہ ریڈ لائن کے حوالے سے نعرے مدہم پڑ چکے ہیں، اب ریاست کے خلاف بغاوت کی سازش میں کمی آ چکی ہے، اب تحریک انصاف، تحریک پریس کانفرنس بن چکی ہے۔ وہ جیالے جنہوں نے ٹرکوں کے نیچے لیٹنا تھا اب سینہ تان کر پریس کانفرنس کر کے اُڑن چھو ہو رہے ہیں۔ وہ جنہوں نے امریکا کو للکارنا تھا اب ویزہ لینے کی لائنوں میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ جنہوں نے خوف کے بت توڑ دینے تھے اب خوف کے مارے گھر سے نکلنے سے اجتناب برت رہے ہیں۔

اس سارے عرصے میں تحریک انصاف پر یہ منکشف ہوا کہ ریڈ لائن کوئی فرد یا جماعت نہیں ہو سکتی۔ ریڈ لائن ریاست ہوتی ہے جس کی حدود و قیود کو پار کرنا جرم ہوتا ہے۔ اور اگر آپ جوش خطابت میں یا کسی کے’فیض‘  سے اس ریڈ لائن کو کراس کریں تو ریاست ماں جیسی نہیں رہتی بلکہ ریاست باپ بن جاتی ہے جو ناخلف اولاد کی سزنش بھی کر سکتی ہے، سزا بھی دے سکتی ہے اور نافرمانی پر عقوبت خانوں میں بھی دھکیل سکتی ہے۔ ریڈ لائن صرف ایک ہوتی ہے وہ ریاست کی سلامتی اور مفادات ہوتے ہیں۔

 تحریک انصاف  کے ’کی بورڈ جنگجوؤں‘ نے بہت دفعہ پہلے بھی ریڈ لائن کراس کی۔ کسی نے پاسپورٹ جلائے، کسی نے پرچم کو پیروں تلے روندا، کسی نے فوج کے سپہ سالار کے خلاف رکیک مہم چلائی، کسی نے جنرل باجوہ کو ’گیدڑ‘ کا لقب دیا لیکن ریاست نے اس پر تحمل کا مظاہرہ کیا، برداشت دکھائی۔ اس برداشت کو تحریک انصاف نے ریاست کی کمزوری سمجھا اور نو مئی کو لشکر لیکر شہدا کی یاد گاروں پر چڑھ دوڑی۔ پھر اس کے بعد آپ کو خود ہی پتہ ہے کہ پروگرام جاری رہا یا ۔۔۔۔۔۔

ریڈ لائن کے بعد تحریک انصاف کا سب سے بڑا کارنامہ آن لائن ہے۔ یہ وہ پارٹی ہے جس کی خوشیاں بھی آن لائن ہیں، ماتم بھی آن لائن، احتجاج بھی آن لائن اور اختلاف بھی آن لائن، وفاداریاں بھی آن لائن، بے وفائیاں بھی آن لائن۔ اس آن لائن کلچر میں اگر کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہ آن لائن جلسے نے پوری کردی۔

اب آن لائن جلسے کے قصیدے پڑھے جا رہے ہیں۔ شرکاء کی تعداد ہزاروں سے ہوتی ہوئی لاکھوں میں اور لاکھوں سے ہوتی ہوئی کروڑوں تک پہنچ چکی ہے۔ کئی روپوش اس جلسے میں شریک ہوئے، کئی پردہ نشیں چھپ چھپ کے آئی ڈیز کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کا مشاہدہ کرتے رہے۔

اس جلسے کے بہت سے فوائد ہوئے۔ نہ کسی نے کرسیاں گننے کی زحمت کی، نہ کسی نے کارکنوں کی کم تعداد کا شکوہ کیا، نہ ڈی جے بٹ کے ساؤنڈ سسٹم کا کوئی خرچہ پڑا نہ سٹیج بنوانے کی کلفت سے گزرنا پڑا۔ لمحوں میں فیک آئی ڈیز سے عوام کا سمندری طوفان تخلیق ہوا اور اس کے بعد رہے نام اللہ کا۔ وہ تماشا ہوا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دی۔ کچھ سمجھ نہیں آیا کہ فتح کس کو ہوئی، شکست کس کا مقدر بنی۔ بس! یہ نعرہ بار بار لگایا گیا کہ آن لائن پاور شو بہت کامیاب رہا۔

جنرل مشرف کے دور کا آخری زمانہ تھا ۔ جنرل صاحب کی مقبولیت روز بہ روز کم ہو رہی تھی کہ کسی نے جنرل صاحب کو ابتلاء کے اس دور میں ’آن لائن‘ والی کہانی سمجھائی۔ دنوں میں جنرل صاحب کے فالوورز لاکھوں میں پہنچ گئے۔ آن لائن سروے پرجنرل صاحب نہ صرف ایشیاء بلکہ دنیا کی معروف ترین شخصیت قرار پائے۔

زمانہ ایسا تھا کہ جنرل صاحب بھی فیس بک پر فالورز کی بڑھتی تعداد دیکھ دیکھ کر جیتے تھے۔ وہ سجھتے تھے کہ یہ آن لائن لوگ ان کے اقتدار کو بچانے آئیں گے، ان کی للکار پر لبیک کہیں گے، ان کے حق میں دم بدم منزلیں مارتے ان کے قدموں میں جان نچھاور کر دیں گے۔

کرنا خدا کا ایسا ہوا کہ وکلاء تحریک سے ہزیمت اٹھانے کے بعد جنرل صاحب کو اپنی مقبولیت کی تصدیق کے لیے ایک جلسہ عام  کروانے کی ضرورت پڑ گئی۔ ڈی چوک میں میدان سجایا گیا۔ پرویزالہی نے جیسے تیسے بیس، پچیس ہزار افراد بسوں میں لاد کر جمع کیے۔ جنرل مشرف کو  توقع کروڑوں کے مجمع کی تھی کیونکہ آن لائن والے یہی بات بتاتے تھے۔

جلسہ گاہ میں عوام  کی قلیل تعداد دیکھ کر جنرل صاحب نے مکے تو لہرائے، نعرے تو لگائے مگر نہ آواز میں وہ دم رہا نہ بازو میں وہ طاقت رہی۔ انہیں اس ایک جلسے میں پتہ چل گیا کہ آن لائن سب دھوکہ ہے اگر عوام گراؤنڈ پر آپ کے ساتھ نہیں تو پھر  کارزار سیاست میں آپ کے قدم نہیں جمتے اور اقتدار ہاتھ سے مٹھی میں سے ریت کی طرح پھلستا جاتا ہے۔ یہ جلسہ جنرل صاحب کے دور اقتدار کا آخری جلسہ ثابت ہوا۔

عمران خان کی جماعت کی بھی یہی صورت حال ہے۔ گراؤنڈ پر نہ پارٹی ہے نہ کارکن، نہ کوئی تنظیم ہے نہ سٹرکچر، نہ ٹکٹ دینے والا کوئی ہے نہ ٹکٹ لینے والا کوئی دستیاب ہے۔

اس صورت حال میں اگر آپ آن لائن جلسے میں کروڑوں کی شرکت کے دعوے کریں گے تو اپنا تماشہ خود بنائیں گے۔ ’کی بورڈ واریرز‘ اور سوشل میڈیا جغادوریوں کو بات سمجھ نہیں آ رہی کہ کہانی اب ختم ہوچکی ہے۔ یہاں مسئلہ یہ بھی ہے کہ ناک سے دو تین لائنیں لگانے کے بعد کسے کوئی بات سمجھ آتی ہے؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp