سپریم کورٹ میں سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کیس اور مدت کے تعین کے معاملے پرسپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہو سکتا ہے آج فیصلہ نہ سنائیں لیکن جتنی جلدی ممکن ہوا سنا دیں گے۔
سیاست دانوں کی تاحیات نااہلی کیس کی مدت کے تعین سے متعلق سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔ لارجربینچ میں جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔ جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی کے دلائل ختم ہونے پر عدالت نے سماعت میں جمعہ تک کا وقفہ کیا جس کے بعد سماعت دوبارہ شروع کر دی گئی۔
عدالتی کارروائی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر براہ راست دکھائی گئی، سماعت شروع ہوتے ہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ نااہلی سے متعلق انفرادی مقدمات اگلے ہفتے سنیں گے، اس وقت قانونی اور آئینی معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین کے دلائل
اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل شعیب شاہین روسٹرم پر آئے اور کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے پیش ہو رہا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے ان کو خوش آمدید کہا اور برملا بولے کہ کب سے انتظار کررہے تھے کہ کوئی سیاسی جماعت آئے۔
وکیل شعیب شاہین نے اپنے دلائل کا آغاز کیا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم فرد واحد کے لیے کی گئی، پارلیمنٹ نے فرد واحد کے لیے ترمیم کرکے سپریم کورٹ کی 62 ون ایف کی تشریح غیر موثر کر دی۔ جس پر چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو الیکشن ایکٹ نہیں اپنا فیصلہ دیکھ رہے ہیں۔
شعیب شاہین نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق آئینی ترمیم لازمی ہوگی، الیکشن ترمیمی ایکٹ میں خامیاں ہیں۔ چیف جسٹس بولے کہ الیکشن ایکٹ سے مسئلہ ہے تو اسے چیلنج کریں۔ تحریک انصاف نے ہمارے سامنے کوئی درخواست دائر نہیں کی۔
بڑی دیر کر دی مہرباں آتے آتے
جسٹس مندوخیل نے پی ٹی آئی وکیل شعیب شاہین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بڑی دیر کر دی مہرباں آتے آتے۔ جس پر وکیل پی ٹی آئی شعیب شاہین نے کہا کہ ہم تو آج کل دیر ہی کر رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے دلائل
نماز جمعہ کے وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کیا۔ انہوں نے 2015 کے اسحاق خاکوانی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کورٹ آف لا کیا ہو گی 2015 میں 7 رکنی بنچ نے یہ معاملہ اٹھایا، سمیع اللہ بلوچ کیس نے کورٹ آف لا کے سوال کا جواب نہیں دیا۔
اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں کیا اسحاق خاکوانی کیس کا حوالہ موجود ہے؟ اٹارنی جنرل نے آگاہ کیا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں خاکوانی کیس کو ڈسکس نہیں کیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے حیرانی کا اظہار کیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے لکھا تھا یہ معاملہ متعلقہ کیس میں دیکھیں گے، اس کے بعد مگر یہ معاملہ کبھی نہیں دیکھا گیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کسی نے یہ نہیں کہا یہ معاملہ فیڈرل شریعت کورٹ کے اختیارمیں ہے؟ اسلامی معاملات پر دائرہ اختیار تو شریعت کورٹ کا ہوتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کورٹ آف لا سے متعلق سمیع اللہ بلوچ نے فیصلہ نہیں کیا لیکن اسحاق خاکوانی کیس میں 2015 میں یہ معاملہ اٹھا تھا، اسحاق خاکوانی کیس میں 7 رکنی بنچ نے اپنے فیصلے میں نااہلی کی ڈکلئیریشن پر سوالات اٹھائے، اسحاق خاکوانی کیس میں یہ کہا گیا کہ نااہلی سے متعلق سوالات کا آئندہ کسی کیس میں عدالت فیصلہ کرے گی۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ جو سوالات اسحاق خاکوانی کیس میں اٹھائے گئے ان کا فیصلہ ہم کریں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ عدالت کو مختلف آئینی سوالات کا تعین کرنا ہو گا، عدالت فیصلہ کرے کہ نااہلی کی ڈکلیریشن کس نے دینی ہے، عدالت فیصلہ کرے کہ کورٹ آف لا کیا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسحاق خاکوانی کیس میں 7 رکنی بنچ فیصلہ کر چکا تھا تو 5 رکنی بنچ نے وہ فیصلہ کیوں نہ دیکھا؟ سپریم کورٹ کا 5 رکنی بنچ 7 رکنی بنچ کے فیصلے کو کیسے نظرانداز کر سکتا ہے؟ سمیع اللہ بلوچ میں 5 رکنی لارجر بنچ نے ماضی کے فیصلے کو نظرانداز کر کے تاحیات نااہلی کا فیصلہ کردیا۔
چیف جسٹس نے جسٹس عمر عطا بندیال کے فیصلے پر سوالات اٹھا دیے
چیف جسٹس نے جسٹس عمرعطا بندیال کے سمیع اللہ بلوچ کیس فیصلے پر سوالات اٹھا دیے، انہوں نے کہا کہ خاکوانی کیس میں 7 رکنی بنچ تھا، سمیع اللہ بلوچ میں 5 رکنی بنچ تھا، 7 رکنی بنچ نے کہا یہ معاملہ لارجر بنچ دیکھے گا، بعد میں 5 رکنی بنچ نے سمیع اللہ بلوچ کیس میں اس پر اپنا فیصلہ کیسے دیا؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یا تو ہم کہیں سپریم کورٹ ججز کا احترام کرنا ہے یا کہیں نہیں کرنا، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خاکوانی کیس میں بھاری نوٹ لکھا، میں اس نوٹ سے اختلاف کرنہیں کرپا رہا، انہوں نے کہا ہم اس معاملے پر کچھ نہیں کرسکتے، اگر میں آئین میں ترمیم کر دوں اور کہوں کہ پارلیمنٹرینز کو ذہین ہونا چاہیے تو اس کا فیصلہ کیا کورٹ آف لا کرے گی؟
’کورٹ آف لا ایسا کر ہی نہیں سکتی، کورٹ آف لا فلسفیانہ سوالوں کے جواب نہیں دیتی، بلکہ سامنے موجود چیزوں کے بارے میں بات کرتی ہے، تو پھر جب پارلیمنٹ نے 5 سال نااہلی کی ترمیم کر دی ہے تو ہم اس پر کیوں نہ رہیں۔ الیکشن ایکٹ کے نااہلی سے متعلق سیکشن 232 کو کسی نے چیلنج ہی نہیں کیا، ہم سیکشن 232 تک محدود کیوں نہ رہیں۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر سیکشن 232 کے مطابق فیصلہ کیا جائے تو نااہلی کی مدت 5 سال ہو گی، لیکن اگر سمیع اللہ بلوچ کے فیصلے کو ختم کیا جائے تو نااہلی کی مدت اسی الیکشن تک محدود ہو گی۔
چیف جسٹس کے ریمارکس اور اٹارنی جنرل سے مکالمہ
چیف جسٹس نے کہا کہ جن لوگوں نے آئین بنایا وہ زیادہ عقلمند تھے انہوں نے 73 کا آئین بنا کے دے دیا۔ کچھ لوگ ٹہلتے ہوئے آئے اور کہا کہ میں اس آئین میں کچھ چیزیں ایسی ڈال دوں کہ یہ سر ہی نہ اٹھا سکیں۔ ہم اس بات کا اعتراف کیوں نہیں کرتے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسحاق خاکوانی کیس میں 7 رکنی بنچ نے اپنے فیصلے میں نااہلی کی ڈکلیئریشن پر سوالات اٹھائے۔
جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ جو سوالات اسحاق خاکوانی کیس میں اٹھائے گئے ان کا فیصلہ ہم کریں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو مختلف آئینی سوالات کا تعین کرنا ہوگا، عدالت فیصلہ کرے کہ نااہلی کی ڈکلیریشن کس نے دینا ہے، عدالت فیصلہ کرے کہ کورٹ آف لاء کیا ہے، سمیع اللہ بلوچ میں 5 رکنی لارجر بنچ نے ماضی کے فیصلے کو نظرانداز کرکے تاحیات نااہلی کا فیصلہ کردیا۔
جسٹس مںصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آپ جو بات کر رہے ہیں اس سے لگتا ہے ابھی ہم نے پہلی رکاوٹ ہی عبور نہیں کی، ڈیکلیریشن کا طریقہ کار کیا ہو گا یہ ہم کیسے طے کر سکتے ہیں؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ نے 5 سال کی مدت طے کر دی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ نے صرف نااہلی کی مدت کا تعین کیا ہے، یا نااہلی کی ڈکلئیریشن اور طریقہ کار کا تعین ابھی نہیں ہوا۔
منصور صاحب اس کا جواب یہ دیں کہ پارلیمنٹ آئندہ یہ بھی طے کر لے گی، چیف جسٹس کا جسٹس منصور کے سوال پر اٹارنی جنرل سے مکالمہ
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ عدالتیں قانون نہیں بناتیں، عدالتیں صرف پارلیمنٹ کے بنائے قانون کا جائزہ لے سکتی ہیں کہ قانون کے مطابق درست ہے یا نہیں۔
جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی کے دلائل
جب سماعت شروع ہوئی تو سب سے پہلے جہانگیر خان ترین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے سامنے بنیادی معاملہ اسی عدالت کا سمیع اللہ بلوچ کیس کا ہے، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی سمیع اللہ بلوچ کیس میں سوال اٹھایا ہے۔
جسٹس منصور علی خان نے استفسار کیا کہ آپ کے مطابق نااہلی کا ڈیکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ جی، ڈیکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا، سول کورٹ فیصلے پر کسی کا کوئی بنیادی آئینی حق تاعمر ختم نہیں ہوتا، کامن لا سے ایسی کوئی مثال مجھے نہیں ملی، کسی کا یوٹیلٹی بل بقایا ہو جب ادا ہو جائے تو وہ اہل ہوجاتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سول اٹھایا کہ کیا سول کورٹ نااہلی کا ڈیکلیریشن دے سکتا ہے؟ جہانگیر ترین کے وکیل نے جواب دیا کہ سول کورٹ ایسا ڈیکلیریشن نہیں دے سکتا، کون سا سول کورٹ ہے جو کسی کو واجبات باقی ہونے پر کہہ دے یہ صادق و امین نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا قانون سازی سے ڈیکلیریشن پر نااہلی کی مدت متعین کی جا سکتی ہے؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آئین میں کورٹ آف لا کی بات ہے جس میں سول اور کریمنل دونوں عدالتیں آتی ہیں، کل جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا آرٹیکل 62 اور63 الگ الگ رکھنے کی وجہ کیا تھی۔ اہلیت اور نااہلی کو الگ الگ رکھا گیا ہے۔
ہم خود کو آئین کی صرف ایک مخصوص جز تک محدود کیوں کر رہے ہیں، قاضی فائز عیسیٰ
جسٹس میاں محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ آرٹیکل 62 کا اطلاق الیکشن سے پہلے ہی ہوتا ہے یا بعد بھی ہو سکتا ہے؟ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہم خود کو آئین کی صرف ایک مخصوص جز تک محدود کیوں کر رہے ہیں، ہم آئینی تاریخ کو بنیادی حقوق کو نظرانداز کیوں کر رہے ہیں، آئین پر جنرل ایوب سے لیکر تجاوز کیا گیا۔
’مخصوص نئی جزیات داخل کرنے سے کیا باقی حقوق لے لیے گئے؟ ہم پاکستان کی تاریخ کو بھول نہیں سکتے۔ پورے ملک کو تباہ کرنے والا پانچ سال بعد اہل ہوجاتا ہے، صرف کاغذات نامزدگی میں غلطی ہو جائے تو تاحیات نااہل؟ صرف ایک جنرل نے یہ شق ڈال دی تو ہم سب پابند ہو گئے؟، خود کو محدود نہ کریں بطور آئینی ماہر ہمیں وسیع تناظر میں سمجھائیں۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ مدت 5 سال طے کرنے کا معاملہ عدالت آیا، کیا ہم /3232 کو ریڈ ڈاون کرسکتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے بھی استفسار کیا کہ یہ بہت مشکوک نظریہ ہے، کیا عدالت یہ کہہ سکتی ہے کہ پارلیمنٹ /3232 کو اسطرح طے کرے کہ سول کورٹ سے ڈگری ہوئی تو سزا 5 سال ہوگی۔
وکیل نے مخدوم علی نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ 185 کے تحت اپیلیں سن رہا ہے، /3232 کو اگلی پارلیمنٹ ختم کرسکتی ہے، عدالت نے طے کرنا ہے کہ سمیع اللہ بلوچ کیس درست تھا یا نہیں، اگر سمیع اللہ بلوچ کیس کالعدم قرار دیا گیا تو قانون کا اطلاق ہوگا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہم سیکشن /2232 کو کیسے کالعدم قرار دیں وہ تو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں، وکیل مخدوم علی نے جواب دیا کہ تاحیات نا اہلی کا اصول عدالتی فیصلے سے طے ہوا ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں فیصلے میں تاحیات کا ذکر نہیں ہے، جس پر وکیل مخدوم علی نے بتایا کہ فیصلے میں کہا گیا جب تک ڈیکلریشن رہے گا نااہلی رہے گی۔
جسٹس امین الدین نے بھی استفسار کرتے ہوئے کہا کہ اگر عدالت ڈکلیریشن کی ہی تشریح کر دے تو کیا مسئلہ حل ہوجائے گا؟ وکیل مخدوم علی نے بتایا کہ ماضی کا حصہ بنے ہوئے ڈیکلریشن کا عدالت دوبارہ کیسے جائزہ لے سکتی ہے؟ جو مقدمات قانونی چارہ جوئی کے بعد حتمی ہوچکے انہیں دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ ڈیکلریشن حتمی ہوچکا ہے تو الیکشن پر اس کے اثرات کیا ہونگے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ فیصل واوڈا کیس میں آپکا کیا خیال ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے بھی کہا کہ وہاں ڈکلیریشن نہیں تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز بولے کہ جب پارلیمنٹ نے نا اہلی کی مدت طے کرائی تو یہ سوال تو اکیڈمک سوال ہوا کہ نا اہلی کی مدت کیا ہوگی۔
جسٹس منصور بولے کہ اگر سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو کالعدم قرار دیں تو سزا کتنی ہوگی؟ چیف جسٹس نے دوبارہ استفسار کیا کہ پارلیمنٹ کہہ چکا ہے نا اہلی 5 سال ہوگی، کیا سمیع اللہ بلوچ کیس میں اٹارنی جنرل کو نوٹس دیا گیا تھا؟ ریکارڈ منگوا لیں۔
جسٹس منصور علی نے کہا کہ 232 دو کے تحت عدالتی معاون کے مطابق سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو بے اثر کر دیا گیا، وکیل مخدوم علی نے کہا کہ سپریم کورٹ صرف سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو دیکھے، سیکشن 232 تین چیلنج ہی نہیں ہوا، امریکا میں قانون کالعدم ہو تو کانگرس نیا قانون بنا لیتی ہے۔ امریکی کانگرس اپنی عدالت کو قائل کرتی ہے کہ اپنے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔
آپ چاہتے ہیں عدالت تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس لے؟، چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں عدالت تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس لے؟ وکیل مخدوم علی نے کہا کہ تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس ہونے تک مدت کم نہیں ہوسکتی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ قانون سازی کے ذریعے ڈیکلریشن کی مدت 5 سال کی گئی ہے۔ وکیل مخدوم نے بتایا کہ نااہلی کی مدت مناسب وقت کے لیے ہونی چاہیے تاحیات نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا ایسی مثال ہے کہ جمہوریت کے رنگ میں کسی کو واپس آنے بارے سزاؤں کو دیکھا جائے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈکلیریشن کی مدت 5 سال ہے؟ وکیل مخدوم علی نے بتایا کہ جب قانون چیلنج ہوگا عدالت تب دیکھ سکتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا آئینی شق کو عام قانون سے ریگولیٹ کیا جا سکتا ہے؟ چیف جسٹس نے بھی پوچھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں اصول طے کر چکے ہیں کہ قانون سے ریگولیٹ ہو سکتا ہے۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ شکیل اعوان، خواجہ آصف، شیخ رشید کیسز دیکھیں تو تا حیات نا اہلی کا فیصلہ لکھنے والے جج آہستہ آہستہ مؤقف بدلتے رہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ایسی کوئی مثال ہے سمیع اللہ بلوچ کے بعد کیس کو تا حیات نا اہل کیا گیا ہو، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ڈکلیریشن کو ختم کیا گیا۔ وکیل مخدوم علی نے کہا کہ ایسی کوئی مثال نہیں۔ جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ ثناء اللہ بلوچ کے لیے بھی سمیع اللہ بلوچ کیس میں کچھ کہا گیا؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ جی نواز شریف کو نااہل کیا گیا، تنخواہ لینے کا سہارا لے کر نااہلی کی گئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ بات نا کریں جو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں، وکیل وہ کیس نہیں لڑتا جس کی اسے فیس نا ملی ہو۔
واضح رہے جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے سماعت میں جمعہ کی نماز کا وقفہ کر دیا۔
گزشتہ سماعت میں چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت کو اس معاملے پر معاونین کی خدمات درکار ہوگی، ہم میڈیا یا سوشل میڈیا کو کنٹرول نہیں کر سکتے، موجودہ کیس سے یہ تاثر نہ لیا جائے کہ عدالت کسی مخصوص جماعت کی حمایت کر رہی ہے، ایک آئینی مسئلہ ہے جس کو ایک ہی بار حل کرنے جا رہے ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آمروں نے صادق اور امین والی شرط اپنے لیے کیوں نہ ڈالی؟۔ مشاورت کے بعد عدالتی معاون بھی مقرر کر سکتے ہیں، بعد ازاں سماعت ملتوی کردی گئی تھی۔