کراچی میں انفلوئنزا کے کیسز میں گزشتہ موسم سرما کی نسبت 3 گنا زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جب کہ محکمہ صحت نے بیماری کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ سے مریضوں کو کورونا وائرس کے پروٹوکول پر عمل کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔
مزید پڑھیں
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ زیادہ تر لوگ مہلک پیچیدگیوں کے بغیر ہی صحت یاب ہو رہے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سرکاری و نجی اسپتالوں سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق کراچی شہر بھر میں انفلوئنزا کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس میں کھانسی، بخار، سینے میں جکڑن اور سر درد کی شکایت شامل ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی اس بیماری کے پھیلنے کی بنیادی وجہ بتائی گئی ہے۔
عمر رسیدہ افراد زیادہ متاثر ہیں
نجی اور سرکاری اسپتالوں حاصل کردہ معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ انفلوئنزا کے کیسز تقریباً ہر سال موسم سرما کے آغاز کے ساتھ زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں، لیکن حالیہ موسم میں بیماری کی مسلسل لہر دیکھی جارہی ہے جو اب بھی برقرار ہے اور اس میں آئے روز اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے، اسپتال ذرائع یہ بھی بتا رہے ہیں کہ اس سے شرح اموات بہت کم ہے تاہم اس سے زیادہ تر عمر رسیدہ افراد متاثر ہو رہے ہیں۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کراچی کی نمائندگی کرنے والے سینیئر جنرل پریکٹیشنر (جی پی) ڈاکٹر الطاف حسین کھتری نے کہا کہ ’ہر دوسرا مریض جس کا ہم پچھلے کچھ ہفتوں سے اپنے کلینک میں معائنہ کر رہے ہیں، فلو میں مبتلا ہے۔ مریضوں میں سے زیادہ تر کو کھانسی، بخار، سینے میں جکڑن اور سر درد کی شکایت ہے۔
انہوں نے اپنے ساتھی ڈاکٹروں کے تجربات کا حوالہ دیتے ہوئے نشاندہی کی کہ ان میں سے کچھ مریضوں میں کورونا وائرس کے شوائد بھی ملے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ’ ایسے مریض بھی ہیں جو کورونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے لیکن بیماری کے لیے ان کا ٹیسٹ نہیں کیا گیا تھا۔ انہوں نے ہدایت کی کہ دونوں صورتوں میں ہم مریضوں کو کورونا وائرس کے تمام ضروری پروٹوکول پر عمل کرنے کے لیے کہتے ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی بیماری کی سب سے بڑی وجہ
انہوں نے کہا کہ اس بیماری کے تیزی سے پھیلنے کی بنیادی وجہ بظاہر ماحولیاتی آلودگی کو کہا جا سکتا ہے، کیوں کہ اس موسم سرما میں ہوا کا معیار انتہائی ناقص ہے۔
سندھ انفیکشن ڈیزیز اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر عبدالواحد راجپوت کے مطابق دسمبر کے وسط سے فلو کے کیسز کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے اسپتال میں آنے والے فلو کے 750 مریضوں میں سے 200 بچے شامل تھے۔ 56 افراد جن کی بیماری شدت اختیار کر گئی تھی، کو اسپتال داخل کیا گیا تاہم ان میں سے کسی کی موت واقع نہیں ہوئی۔
انہوں نے دلچسپ بات یہ بتائی کہ ان مریضوں میں سے کچھ مریضوں کا کووڈ ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسپتال میں داخل ہونے میں زیادہ کمزور قوت مدافعت والے مریض اور صحت کے متعدد مسائل کے ساتھ عمر رسیدہ افراد شامل تھے۔
کورونا وائرس اور اموات کی اطلاعات
ادھر آغا خان یونیورسٹی اسپتال (اے کے یو ایچ) میں اکتوبر سے شروع ہونے والے موسم سرما میں انفلوئنزا کے کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اے کے یو ایچ میں متعدی امراض کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر فیصل محمود نے کہا کہ گزشتہ سالوں میں نومبر اور دسمبر میں لیبارٹری ٹیسٹنگ کا سلسلہ محدود ہوتا تھا لیکن امسال ہماری لیبارٹری میں ہر ماہ 100 کے قریب کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ انفلوئنزا وائرس جو اکثر کورونا وائرس (سارس کووڈ 2 وائرس) کا سبب بنتا ہے، سنگین بیماری کا سبب بن سکتا ہے۔
اس کی علامات میں کھانسی، جسم میں درد، تیز بخار اور یہاں تک کہ موت بھی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ درحقیقت اس موسم میں ہمارے اسپتال میں خاص طور پر بزرگوں اور دیگر طبی مسائل میں مبتلا افراد میں سے کچھ کی موت بھی واقع ہوئی ہے۔
اس سال انفلوئنز کے کیسز میں 4 گنا زیادہ اضافہ ہوا ہے
ڈاکٹر محمود نے اس رائے کی تائید کی کہ2023-24کے سیزن میں گزشتہ 2022-23 کے موسم سرما کے مقابلے میں انفلوئنزا کے کیسز کی تعداد میں زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سیزن کے مقابلے میں اس سیزن میں یہ 3 سے 4 گنا زیادہ ہے۔ اس موسم میں یہ قسم ایچ 3 این 2 ہے۔ پچھلے سیزن میں یہ ایچ 1 این 1 تھا (جسے 2009 میں سوائن فلو کہا جاتا تھا)۔
وائرس ہر سال تبدیل ہوتا ہے
کیسز کی زیادہ تعداد کی وجوہات کے بارے میں ڈاکٹر محمود کا کہنا تھا کہ وائرس ہر سال تبدیل ہوتا ہے اور اس لیے ہر چند سال بعد وبا پھیلتی ہے۔
انفلوئنزا ویکسین کی کوریج بھی ٹھیک نہیں
انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ انفلوئنزا ویکسین کی کوریج بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کمیونٹی میں وائرس کے خلاف قوت مدافعت بھی کورونا وائرس سے پہلے کے دور کے مقابلے میں کم ہے کیونکہ لوگ کورونا وائرس کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کر رہے تھے جس کی وجہ سے انفلوئنزا کی شرح میں کمی آئی تھی۔
اس سے بچاؤ کے حوالے سے ڈاکٹر محمود کا کہنا تھا کہ ایک ایسی دوا موجود ہے جس سے شدید انفیکشن کا خطرہ کم ہوتا ہے لیکن اسے جلد استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
ماسک لگانا اور ہاتھ صاف رکھ کر بیماری سے بچا جا سکتا ہے
اگر کوئی بیمار ہو تو ماسک لگانا اور ہاتھوں کو صاف رکھنا ضروری ہے۔ دوسرا طریقہ ویکسین ہے، جسے ہر سال اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے کیونکہ انفلوئنزا وائرس تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ ویکسین لگوانے کا بہترین وقت اکتوبر یا نومبر میں ہے۔