اسٹیفن ہاکنگ اور غزہ

پیر 8 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جون 2013 میں فیس ٹو مارو (Face Tomorrow) کے نام سے یروشلم میں منعقدہ اکیڈمک کانفرنس کی میزبانی اسرائیلی صدر شمعون پیریز نے کی تھی جبکہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن اور سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر سمیت دنیا کے نامور سائنس دانوں، سفارتکاروں اور اہلِ علم نے بھی کانفرنس سے خطاب کیا تھا۔ معروف سائنسدان ’اسٹیفن ہاکنگ‘ کو بھی بطور خاص مدعو کیا گیا تھا لیکن انہوں نے اسرائیل کو غاصب ملک قرار دیتے ہوئے اسرائیلی صدر کی دعوت ٹھکرا دی تھی۔ اُن کا مؤقف تھا کہ فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے جابرانہ قبضے کے خلاف کانفرنس میں شرکت سے انکار ان کا ذاتی فیصلہ ہے۔’اسٹیفن ہاکنگ‘ کے بائیکاٹ نے اسرائیل کو دنیا بھر میں بدترین شرمندگی سے دوچار کیا تھا۔

’اسٹیفن ہاکنگ‘ ماضی میں 4 مرتبہ اسرائیل کا دورہ کر چکے تھے۔ 2006 میں، انہوں نے تل ابیب میں برطانوی سفارت خانے کے مہمان کی حیثیت سے اسرائیلی اور فلسطینی جامعات میں لیکچرز دیے تھے۔ اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ وہ اسرائیلی اور فلسطینی سائنسدانوں سے ملاقات کے لیے پرجوش ہیں۔ تاہم اس کے بعد سے اسرائیل کے بارے میں ان کا رویہ سخت ہوتا دکھائی دیا جب 26 جنوری 2009 کو انہوں نے غزہ پر اسرائیل کے حملے کی شدید مذمت کی تھی، الجزیرہ ٹی وی پر رز خان کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ غزہ سے راکٹ فائر کرنے پر اسرائیل کا جوابی حملہ طاقت کا غیر متوازن استعمال اور کھلی جارحیت ہے۔

’اسٹیفن ہاکنگ‘ بلیک ہولز اور نظریہ اضافیت میں گراں قدر خدمات کے حوالے سے عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ انہیں نظریاتی فزکس میں آئن سٹائن کے بعد سب سے بہترین سائنسدان قرار دیا جاتا ہے۔ 1988 میں شائع ہوئی کتاب ’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘ ان کی پہچان کا معتبر حوالہ ہے، جس کی ایک کروڑ سے زائد کاپیاں فروخت ہوئی تھیں۔

یہ بھی دلچسپ حقیقت ہے کہ اسٹیفن ولیم ہاکنگ آج ہی کے دن 8 جنوری 1942 کو دوسری جنگ عظیم کے دوران آکسفورڈ میں پیدا ہوئے تھے، اطالوی ماہر فلکیات گلیلیو گلیلی کی وفات کے ٹھیک 300 برس بعد۔ گلیلیو کو’فلکیاتی مشاہدے کا باپ‘ کہا جاتا ہے، گلیلیو نظریاتی ماہرِ طبیعیات اور کاسمولوجسٹ کی حیثیت سے اسٹیفن کے آئیڈیل رہے تھے۔

اسٹیفن ہاکنگ، ڈاکٹر فرینک ہاکنگ اور ایلن اسوبیل ہاکنگ کے چار بچوں میں سب سے بڑے تھے۔ اسٹیفن کا بچپن ہائی گیٹ، لندن اور پھر سینٹ البانس اور ہرٹفورڈ شائر میں گزرا۔ اسٹیفن نے سینٹ البانس اسکول میں دوران پڑھائی خاصی دیر سے ’کلک‘ کیا تھا مگر ان میں موجود تجسس نے انہیں تیزی سے آگے بڑھایا، یہی وجہ تھی کہ ان کے ہم جماعت انہیں ’آئن سٹائن‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ اسٹیفن نے اپنے دوستوں کے ساتھ کائنات کی ابتدا کے بارے میں قیاس آرائیاں کرنا شروع کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ’میں کائنات کی گہرائیوں کو سمجھنا چاہتا تھا۔‘ تحقیق کے اسی جذبے نے ان کی سمت کا تعین کر دیا تھا۔

اسٹیفن ہاکنگ نے کیمبرج یونیورسٹی میں فلکیات کا شعبہ منتخب کیا تھا، لیکن دوران پی ایچ ڈی 1963 میں 22 برس کی عمر میں انہیں ’موٹر نیورون‘ نامی مرض کی تشخیص ہوئی اور ڈاکٹرز نے بتایا کہ وہ محض چند برس ہی زندہ رہ سکیں گے۔ کچھ ہی ماہ میں اسٹیفن ہاکنگ ویل چیئر تک محدود ہو گئے اور بول چال تک کے لیے آلات کا سہارا لینا پڑا۔

خدا کی شان تھی کی ڈاکٹرز کی پیش گوئی کے برعکس پروفیسر اسٹیفن ہاکنگ موذی مرض کے ساتھ قریباً نصف صدی تک زندہ رہے ان کا اس طرح زندہ رہنا کسی ’معجزے‘ سے کم نہ تھا۔ 1965 میں جین وائلڈ کے ساتھ شادی کی، ان کے تین بچے بھی ہوئے جن کے نام لوسی، رابرٹ اور ٹموتھی رکھے گئے۔

اسٹیفن ہاکنگ خود کار اور جدید قسم کی ویل چیئر پر بیٹھے بیٹھے زبان ہلائے بغیر سائنسی موضوعات پر لیکچر دینے لگے تھے۔ ویل چیئر پر جدید کمپیوٹر نصب تھا، جس کی باریک تار ہاکنگ کے گال سے چسپاں رہتی تھی، وہ جو کچھ کہنا چاہتے تو کمپیوٹر گال کی جنبش کو آواز میں بدل دیتا تھا۔

1974 میں انہوں نے نظریہ پیش کیا کہ خلا میں بلیک ہول سے ایسی شعاعیں خارج ہوتی ہیں جو کائنات میں بڑی تبدیلیوں کا مؤجب بنتی ہیں، جنہیں ان کی نسبت سے ’ہاکنگ ریڈی ایشن‘ کا نام دیا گیا تھا۔ 1979 سے 2009 تک اسٹیفن کیمبرج یونیورسٹی میں اس عہدے پر فائز رہے جہاں کبھی آئزک نیوٹن نے خدمات انجام دی تھیں۔ اسٹیفن نے 12 اعزازی ڈگریاں حاصل کیں جبکہ 2009 میں انہیں سب سے بڑے امریکی سول اعزاز، صدارتی میڈل سے نوازا گیا تھا۔

اسٹیفن ہاکنگ کہتے تھے کہ عام آدمی دو یا تین سمتوں میں چیزوں کو پرکھتا ہے جبکہ وہ گیارہ سمتوں میں پرکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس نظریے کو انہوں نے 7 ستمبر 2010 میں شائع ہونے والی کتاب ’دی گرینڈ ڈیزائن‘ میں دلچسپ طریقے سے بیان کیا ہے۔ 2014 میں اسٹیفن ہاکنگ کی زندگی پر فلم ’دی تھیوری آف ایوری تھنگ‘ بنائی گئی جس میں مرکزی کردار ایڈی ریڈمین نے ادا کیا تھا۔

اسٹیفن ہاکنگ کی زندگی پر فلم ’دی تھیوری آف ایوری تھنگ‘ بنائی گئی جس میں مرکزی کردار ایڈی ریڈمین نے ادا کیا تھا

اسٹیفن نے جنوری 2017 میں اپنی 75 ویں سالگرہ منائی، جو ایک ایسے شخص کے لیے ایک ناقابل یقین کامیابی تھی جسے بتایا گیا تھا کہ اس کے پاس زندہ رہنے کے لیے دو سال ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی نے اس عظیم موقع پر ’گریویٹی اینڈ بلیک ہولز‘ کے عنوان سے ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔

اس موقع پر اسٹیفن نے کہا تھا کہ ہمیشہ ستاروں پر نظر رکھیں نہ کہ نیچے پیروں پر اور آپ جو کچھ دیکھتے ہیں اسے سمجھنے کی کوشش کریں اور حیران ہوں کہ کائنات کا وجود کیا ہے؟ متجسس رہیں، زندگی کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہو، آپ ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرسکتے اور کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ کبھی ہار نہ مانیں۔

اکتوبر 2017 میں کیمبرج یونیورسٹی نے ان کے 1966 کے پی ایچ ڈی کے مقالے ’پھیلتی ہوئی کائنات کی خصوصیات‘ کو جامعہ کی ویب سائٹ پر جاری کیا تو مقالہ پڑھنے والوں کے رش کے باعث ویب سائٹ کریش ہوگئی تھی۔ چند ہی دنوں میں مقالے کو 20 لاکھ سے زائد مرتبہ پڑھا گیا جبکہ پانچ لاکھ سے زائد صارفین نے اسے ڈاؤن لوڈ کیا تھا۔

14 مارچ کو البرٹ آئن سٹائن پیدا ہوئے تھے اور اسی تاریخ کو اسٹیفن ہاکنگ کا انتقال ہوا تھا۔ 14 مارچ 2018 کو روشن دماغ سائنسدان ناقابل یقین اور بے مثال زندگی گزار کر بالخصوص معذور افراد کے لیے عزم و حوصلے کی ایسی راہ متعین کر گیا جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

اسٹیفن ہاکنگ کا کہنا تھا کہ دنیا گلوبل وارمنگ کی وجہ سے مسلسل گرم ہو رہی ہے اور آئندہ 600 برس میں یہاں زندگی کا تصور قریباً ناممکن ہو جائے گا۔ دنیا اگلے ہزار برس میں ختم ہوجائے گی، لہٰذا انسانوں کو اپنی بقا کے لیے دوسرے سیاروں کا رخ کرنا ہوگا، ہمیں چاہیے کہ ہم خلا میں پھیل جائیں۔

حیرت انگیز بات ہے کہ علامہ اقبال ان سے بہت پہلے کہہ چکے ہیں: ’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp