سری لنکا میں ہاتھی تیزی سے مرنے لگے، سبب کیا ہے؟

منگل 6 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سمترا ملکانڈی اس واقعہ کو یاد کرتی ہیں تو کرب میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ گزشتہ برس مارچ کی ایک شام کو ایک ہاتھی نے ان کے شوہر تھلک کمارا کو کچل کر ہلاک کر دیا تھا۔

برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق، سمترا اپنے شوہر کے ساتھ وسطی سری لنکا کے گاؤں میں رہتی تھیں جہاں پر لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔

اس روز سمترا کے شوہر گھر سے باہر گائیوں کو چارہ ڈالنے میں مصروف تھے۔ جبکہ سمترا اس وقت باورچی خانے میں تھیں جب انہوں نے ایک ہاتھی کے چنگھاڑنے کی آواز سنی۔

سمترا نے اس حوالے سے بتایا کہ وہ تھلک کو خبردار کرنے ہی والی تھیں کہ چند منٹ میں یہ ہولناک واقعہ پیش آگیا اور پھر گاؤں والوں کی چیخ پکار سن کر ہاتھی وہاں سے بھاگ گیا۔

45 سالہ سمترا ملکانڈی کی 3 جوان بیٹیاں ہیں اور یہ خاندان ابھی تک اس صدمے سے باہر نہیں نکل سکا۔ انہیں خدشہ ہے کہ ایسا واقعہ دوبارہ پیش آ سکتا ہے۔

ہاتھی اور انسان ایک دوسرے کو مار رہے ہیں

سمترا کا گھر ناریل، آم اور کیلے کے درختوں سے گھرا ہوا۔ ہاتھی ان پھلوں کو کھانا پسند کرتے ہیں۔ سمترا کا گھر کھیتوں کے قریب اور گھنے جنگل سے صرف چند سو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ان کے گاؤں کا نام کرونیگالا ہے۔ ضلع تھلگاسووا کا یہ گاؤں انسانوں اور ہاتھیوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازعہ میں اب سرفہرست تصور کیا جاتا ہے۔

مقامی حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ 2 برسوں میں صرف تھلگاسووا اور قریبی دیہات میں 3 افراد اور 10 ہاتھی ہلاک ہو چکے ہیں۔ گاؤں والے اب غروب آفتاب کے بعد اپنے گھروں سے باہر نکلنے سے ڈرتے ہیں۔ لیکن یہ مسئلہ صرف اس ایک چھوٹے سے علاقے تک محدود نہیں۔

تھلک کمارا ان 176 افراد میں سے ایک ہیں جو گزشتہ سال سری لنکا میں ہاتھیوں کے سبب ہلاک ہوئے۔ اس ایک سال کے دوران سری لنکا میں 470 ہاتھی بھی مارے گئے جن میں سے آدھے انسانوں کے ہاتھوں جبکہ باقی بیماری یا حادثات میں ہلاک ہوئے۔ اموات کی اس تعداد سے ظاہر ہوتا ہے کہ سال کے ہر دن ایک سے زیادہ ہاتھی مرتے ہیں، جبکہ ہر 2 دن میں ایک انسان مارا جاتا ہے۔

انسانوں اور ہاتھیوں کے درمیان تنازعہ کی وجہ کیا ہے؟

رپورٹ کے مطابق، سری لنکا میں کاشتکاری میں اضافے کے ساتھ ہاتھیوں کے علاقوں پر انسانی قبضہ بھی بڑھتا جا رہا ہے، جو ان کی خوراک اور پانی کے حصول کے ذرائع میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ یہ عمل لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ سری لنکا میں ہاتھیوں کے ماہر پرتھوی راج فرنینڈو بتاتے ہیں، ’ہم جتنی بھی غذائی فصلیں کاشت کرتے ہیں وہ ہاتھیوں کے لیے مرغوب ہوتی ہیں۔‘

زراعت اور کاشت کاری کا یہ رجحان سری لنکا کے مشہور ہاتھیوں کے مستقبل کو غیر یقینی بنا رہا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 2023 میں ہاتھیوں کی اموات کی سب سے زیادہ تعداد ریکارڈ کی گئی ہے۔

انسانوں اور ہاتھیوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافے کے پیش نظر ہاتھیوں کے تحفظ کی حمایت کرنے والے افراد حکومت سے اس ضمن میں فوری کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

سری لنکا کنزرویشن سوسائٹی کی ماہر ماحولیات چندیما فرنینڈو کا کہنا ہے کہ 2009 میں ملک میں خانہ جنگی ختم ہونے کے بعد حکومت نے لوگوں کو مزید زمینیں دینا شروع کر دیں۔ یہ زمینیں ان علاقوں میں تھیں جنہیں جنگ کے دوران نو گو ایریاز قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جب کھیتی باڑی اور بستیوں کے لیے مزید زمینیں دستیاب ہوئیں تو لوگوں کا ہاتھیوں سے رابطہ بھی بڑھ گیا۔

مذہبی اہمیت کے باوجود ہاتھیوں کا قتل جاری

معدومیت کے خطرے سے دو چار ان ہاتھیوں کو مارنا سری لنکن قانون کے تحت قابل سزا جرم ہے۔ مزید برآں، سری لنکا میں ہاتھیوں کو مذہبی اور معاشی اہمیت بھی حاصل ہے اور سدھائے گئے ہاتھی وہاں اکثر اوقات مذہبی جلوسوں اور سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود کسان اپنی فصلوں اور خود کو بچانے کے لیے مہلک احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے نہیں رکتے۔

سری لنکا میں ایسی برقی باڑ لگانے کی اجازت ہے جو جانوروں کو نقصان پہنچائے بغیر انہیں کھیتوں اور گھروں سے دور رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ملک میں تقریباً 5 ہزار کلومیٹر طویل بجلی کی باڑ لگائی گئی ہے۔ ایسے علاقوں میں تھلگاسویوا بھی ہے جہاں گھروں کے ارد گرد باڑ لگائی گئی ہے اور حکومت اس کو مزید پھیلانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

لیکن ہاتھیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ کسانوں نے غیر قانونی طور پر زیادہ وولٹیج والی باڑیں بھی لگا رکھی ہیں جو ہاتھیوں کو ہلاک کر سکتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسان زہر اور دھماکہ خیز مواد کا استعمال بھی کرتے ہیں اور بعض اوقات وہ ہاتھیوں کو بھگانے کے لیے ان پر گولی بھی چلاتے ہیں۔

ہاتھیوں کو فصلوں سے دور رکھنے کا کیا طریقہ ہے؟

چندیما فرنینڈو جیسے ماہرین اس حوالے سے بہتر اور آسان طریقہ کار تجویز کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دوسری فصلوں کے بجائے سٹرس پھلوں کی کاشت کی جانی چاہیے کیونکہ یہ فصلیں ہاتھیوں کو اپنی جانب راغب نہیں کرتیں۔

ایک اندازے کے مطابق، سری لنکا میں 5800 ہاتھی محفوظ علاقوں میں گھومتے ہیں۔ بعض ماہرین خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ ملک میں ہاتھیوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ کم ہوسکتی ہے۔

ایک ہاتھی عام طور پر ایک دن میں 48 کلومیٹر تک سفر طے کرتا ہے اور تازہ پانی کے قریب رہتا ہے۔ وہ طویل فاصلے تک اس وقت تک سفر نہیں کرتے جب تک کہ ان کا کھانا ختم نہ ہوجائے۔ البتہ خشک سالی کے باعث وہ قریبی کھیتوں کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔

سری لنکن حکومت نے لوگوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ محفوظ علاقوں سے باہر آنے والے ہاتھیوں کو واپس ان کے علاقوں میں دھکیل دیا کریں کیونکہ دن بدن سکڑتے جنگلات ہاتھیوں کی زیادہ تعداد کا سہارا نہیں بن سکتے۔

ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر کے مطابق، انیسویں صدی کے بعد سے سری لنکا میں ہاتھیوں کی آبادی میں تقریباً 65 فیصد کمی آئی ہے۔ ایک دہائی قبل، سری لنکا میں سالانہ 250 ہاتھی ہلاک ہوتے تھے مگر ان کی سالانہ اموات میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور یہ مسلسل دوسرا سال ہے جس میں ان کی اموات کی تعداد 400 سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔

پرتھوی راج فرنینڈو نے کہا ہے کہ اگر ہاتھیوں کی اس تناسب سے اموات ہوتی رہیں تو سری لنکا میں ہاتھیوں کی 70 فیصد آبادی ختم ہوجائے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp