سپریم کورٹ آف پاکستان نے 5 جنوری کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کو نا صرف ختم کیا ہے بلکہ اس کو پارلیمانی قانون سازی کے لیے چھوڑ دیا ہے کہ وہ طے کرے کہ کونسی عدالت کس طریقہ کار کے تحت کسی امیدوار کو انتخابات کے لیے نااہل قرار دے سکتی ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جب تک پارلیمان سے یہ وضاحت نہیں آتی تو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیے گئے سارے سیاستدان اہل ہو جائیں گے اور کیا الیکشن ایکٹ کی شق (2) 232 کا اطلاق بھی نہیں ہو گا جس کے تحت نااہلی کی مدت 5 سال ہے۔
Related Posts
سپریم کورٹ نے چونکہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی سے متعلق پہلے اور بنیادی مقدمے سمیع اللہ بلوچ کے فیصلے کو ہی ختم کر دیا ہے تو اس سے سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ آیا اب انتخابات میں نااہلی کی بنیاد کیا ہو گی۔ اس کے لیے ہم نے ماہرین قانون سے بات کی ہے۔
جتنے سیاستدان نااہل ہوئے تھے سب اہل ہو گئے، ایڈووکیٹ عمران شفیق
ایڈووکیٹ عمران شفیق نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ آرٹیکل 62 ون ایف کے معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے سے سیاستدانوں کے سر پر جو تلوار لٹکتی رہتی تھی کہ کوئی درخواست گزار سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ میں چلا گیا تو وہ وہ نااہل ہو جائیں گے، وہ تلوار ہٹ گئی ہے۔
انہوں نے کہاکہ عملی طور پر آرٹیکل 62 ون ایف ایک طریقے سے ختم ہی ہو گیا ہے اور اس آرٹیکل کی حیثیت آئین میں لکھی گئی ایک اچھی بات سے زیادہ نہیں رہی اور اب یہ آرٹیکل صرف رہنمائی کے کام ہی آ سکے گا۔
تاحیات نااہلی سے متعلق عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ کی ترمیم میں تضاد پر سپریم کورٹ کا نوٹس
عمران شفیق نے کہاکہ اب اس فیصلے کے نتیجے میں پارلیمنٹ کو یہ وضاحت کرنا پڑے گی کہ کورٹ آف لا کیا ہے۔ جب تک پارلیمان اس بات کی وضاحت نہیں کرتا تب تک آرٹیکل 62 ون ایف بے اثر ہے اور اس کے اطلاق سے نااہل ہونے والے تمام سیاستدان اب اہل ہو چکے ہیں۔
الیکشن ایک 2017 کی شق (2) 232 جس کے تحت کسی عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نااہلی کی مدت 5 سال رکھی گئی ہے، کیا اس کا اثر بھی ختم ہو چکا ہے؟ اس سوال کے جواب میں عمران شفیق نے کہاکہ اس کا اثر بھی ختم ہو چکا ہے کیونکہ پارلیمان کو وضاحت کرنا پڑے گی کہ کورٹ آف لا سے کیا مراد ہے۔ سپریم کورٹ نے چونکہ 62 ون ایف کے تحت نااہلی کے پہلے مقدمے سمیع اللہ بلوچ کو ختم کر دیا ہے اس لیے اب یہ بنیاد ہی ختم ہو گئی ہے۔
اب نااہل ہونے والے سیاستدان الیکشن میں حصہ لے سکیں گے، کامران مرتضیٰ
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضیٰ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کا اطلاق کسی کورٹ آف لا کی جانب سے کسی شخص کے خلاف فیصلے کی صورت میں ہوتا تھا جس کو سپریم کورٹ نے سمیع اللہ بلوچ مقدمے میں تاحیات نااہلی قرار دیا تھا جبکہ 62 ون ایف میں نااہلی کی مدت درج نہیں۔ لیکن اب سپریم کورٹ فیصلے کے بعد نااہلی کی یہ مدت تاحیات نہیں بلکہ قانون کے تابع ہو گی جو کہ الیکشن ایکٹ میں لکھا ہے۔ تاحیات نااہلی کے فیصلے سے بہت سارے لوگ متاثر تھے جو اس فیصلے کے بعد سیاست میں حصہ لے پائیں گے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے نے سیاست کو آزاد کر دیا ہے، امان اللہ کنرانی
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کا جلد آنا بے حد ضروری تھا کیونکہ کئی لوگ سیاست اور انتخابات میں حصہ لینا چاہتے ہیں اور اگر یہ فیصلہ بروقت نہ آتا تو ان کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے۔
امان اللہ کنرانی نے نواز شریف ہیلی کاپٹر کیس کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ اس مقدمے میں نواز شریف کو سنہ 2000 میں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن سزا پوری کیے بغیر وہ جدہ چلے گئے تھے اور جب 2009 میں واپس آئے تو اپیل دائر کی جو اپیل دائر کیے جانے کی مقررہ مدت سے بہت آگے چلی گئی تھی۔ لیکن سزا یافتہ ہونا چونکہ ایک داغ ہے اس لیے ہائیکورٹ نے ان کی سزا کے خلاف اپیل کو سماعت کے لیے منظور کیا اور پھر سزا کا فیصلہ بھی کالعدم قرار دے دیا۔
انہوں نے کہاکہ نواز شریف کی اپیل 8 سال بعد ہائیکورٹ نے اس بنیاد پر سنی کہ بنیادی حقوق کا معاملہ تھا اور نااہلی بھی بنیادی حقوق کا حقوق کا معاملہ ہے۔ اس معاملے سے کئی لوگ متاثر ہورہے تھے۔
سمیع اللہ بلوچ اور فیصل واوڈا کی اہلیت سے متعلق فیصلوں میں تضاد تھا
نااہلی مقدمے بارے بات کرتے ہوئے امان اللہ کنرانی نے کہا کہ اس ضمن میں پہلا فیصلہ سمیع اللہ بلوچ کے مقدمے میں آیا تھا جس میں کہا گیا کہ سزا یافتہ مجرم تب تک نااہل رہے گا جب تک وہ کسی عدالت سے بے قصور ثابت نہیں ہو جاتا۔ نااہلی مقدمے میں سپریم کورٹ نے ایک طرف سمیع اللہ بلوچ، میاں نواز شریف سمیت دیگر کو تاحیات نااہل کیا اور وہیں اللہ دینو بھائیو اور فیصل واوڈا مقدمات میں اپنے ہی فیصلوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہیں اہل قرار دیا۔
آرٹیکل 62 ون ایف میں کہیں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں ہے جبکہ الیکشن ایکٹ 2017 میں نااہلی کی مدت کا تعین 5 سال کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلے سے پارلیمان کی بالادستی کو قبول کیا ہے اور سیاست کو آزاد کیا ہے۔