گیس کے نرخ 2 گنا بڑھے، لیکن بل 8 سے 10 گنا سے زائد کیوں آنے لگے؟

بدھ 10 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

حکومت نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کے لیے آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر قرض لیا تھا، معاشی ماہرین نے اس وقت خبردار کر دیا تھا کہ قرض کی فراہمی کے بعد آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرتے ہوئے حکومت کو بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانا ہوں گے۔

گزشتہ سال اگست میں ہی بجلی کے نرخ بڑھائے گئے تھے، جس کے بعد عوام نے زائد بلوں کے باعث ملک بھر میں احتجاج کرتے ہوئے بجلی کے بل بھی نذر آتش کردیے تھے، تاہم ملک گیر عوامی اجتجاج کے باوجود حکومت عوام کو کوئی ریلیف دینے میں ناکام رہی تھی۔

اب موسم سرما کے آتے ہی اب عوام کے لیے گیس کے بل کی ادائیگی نا ممکن ہوتی جا رہی ہے، گزشتہ سال جس گھر کے گیس کا بل 1 ہزار تک آتا تھا وہ اب 6 ہزار روپے سے زائد آنے لگا ہے، دوسری جانب جس گھر کا گیس کا ماہانہ بل 10 ہزار تک آتا تھا وہ اب 50 ہزار روپے سے زائد آرہا ہے۔

بجلی کے بعد گیس کے زائد بلوں نے عوام کو مزید معاشی پریشانی سے دوچار کردیا ہے اور وہ گیس بلوں میں اس قدر اضافے سے مجبوراً ملک گیر احتجاج کرنا ہوگا، عوام تو گیس کے زائد بلوں سے پریشان ہے ہی اور اس کی الگ منطقیں پیش کر رہی ہے لیکن اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ سال گیس صارفین سے کوئی بھی فکسڈ چارجز وصول نہیں کیے جا رہے تھے۔

اسی طرح اس قدر زائد جنرل سیلز ٹیکس بھی وصول نہیں کیا جا رہا تھا اور گیس کے نرخ بھی کم تھے، اب آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کرتے ہوئے حکومت نے گھریلو صارفین کے لیے 2 ہزار فکسڈ چارجز، 20 فیصد جنرل سیلز ٹیکس، اور گیس نرخ 172 فیصد تک بڑھا دیے ہیں۔

وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اسلام آباد کے رہائشی راشد زوراج نے بتایا کہ وہ گیس اور بجلی کے زائد بلوں سے بچنے کے لیے گیس اور بجلی کا انتہائی کم استعمال کرتے ہیں جبکہ انہوں نے ایسے آلات لگائے ہوئے ہیں کہ جس سے گیزر بھی کم گیس استعمال کرتا ہے اور ان کے ہیٹرز بھی جاپانی ہیں جو کہ گیس اور بجلی دونوں پر چلتے ہیں۔

گزشتہ سال جنوری میں راشد زوراج کے گھر گیس کا بل 800 روپے آیا تھا اور پوری سردیوں میں بل 2 ہزار روپے سے زائد نہیں آیا، تاہم اس بار جنوری میں ان کے گھر گیس کا بل 6 ہزار روپے آیا ہے، اس مرتبہ گیس بل میں فکسڈ چارجز 2 ہزار روپے وصول کیے گئے ہیں اس کے علاوہ 1 ہزار روپے سے زائد جنرل سیلز ٹیکس وصول کیا گیا ہے۔

’تمام تر بچت کرنے کے باوجود اگر گیس کے بل بھی 6 سے 8 ہزار روپے آنے لگ جائے گا تو اپنے مخصوص بجٹ میں گھر چلانا اور بچوں کی فیس ادا کرنا مشکل ہو جائے گا، سمجھ نہیں آتا کہ حکومت کہتی تھی کہ آئی ایم ایف کی قسط مل جائے گی تو معاشی حالات بہتر ہو جائیں گے لیکن ہمارے معاشی حالات مشکل سے مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں۔‘

راولپنڈی کے رہائشی شہزاد انور کے مطابق گزشتہ سال جنوری میں ان کے گھر کا گیس کا بل 1500 روپے آیا تھا تاہم اس سال جنوری میں اسی طرح گیس استعمال کرنے پر 18 ہزار روپے بل آیا ہے، گیس کے بل میں اس قدر اضافے سے وہ حیران بھی ہیں اور پریشان بھی۔

’میرا خیال تھا کہ گزشتہ سال کی نسبت اس سال گیس کا بل دگنا آئے گا لیکن ایسا نہیں ہوا، اس سال گیس کے بل میں دو بڑے چارجز وصول کیے گئے ہیں جس میں سے ایک اضافی 2 ہزار روپے فکسڈ چارج اور ایک 3 ہزار روپے جنرل سیلز ٹیکس وصول کیا گیا ہے۔‘

شہزاد انور کے مطابق اس بار ان کے گھر استعمال کی گئی گیس کے چارجز 3 سے 4 ہزار روپے ہوتے تو سمجھ آتے لیکن گزشتہ سال جتنی گیس استعمال کرنے پر اس بار 13 ہزار روپے کا بل بھیجا گیا ہے، گیس کے بل میں اس حد تک اضافے سے صرف وہ ہی نہیں بلکہ پورا خاندان پریشان ہے۔

واضح رہے کہ نگراں وزیر توانائی محمد علی نے اکتوبر میں گیس نرخوں میں 172 فیصد اضافہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پچھلے ایک عشرے سے پاکستان میں گیس کی طلب کے مقابلے میں گیس کی پیداوار کم رہی ہے اور اضافی گیس درآمد کرنا پڑتی ہے۔

’آج جو ہم تیل اور گیس نکال رہے ہیں وہ 10 سال قبل نکالے جانے والے تیل اور گیس کے مقابلے میں ہزار ارب روپے سے کم ہے، تو مانگ کو پورا کرنے کے لیے جو تیل اور گیس ہم درآمد کرتے ہیں وہ مہنگے ہوتے ہیں۔ درآمدی گیس کی قیمت مقامی کے مقابلے میں دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔‘

نگراں وزیر توانائی محمد علی کے مطابق عوام تک پہنچانے کے بعد گیس کی قیمت اور وصولی میں 210 ارب روپے کا فرق آتا ہے، لہذا اگر یہ قیمت نہ بڑھائی جاتی تو سالانہ 400 ارب روپے کا نقصان اٹھانا ہوتا۔

حکومت کی جانب سے گیس نرخ بڑھانے کے بعد ماہانہ 25، 60، 100، 150، 200، 300 اور 400 مکعب میٹر گیس استعمال کرنے والے صارفین کے لیے بالترتیب قیمت 200، 300، 400، 600، 800، 1100 اور 2000 سے بڑھا کر 300، 600، 1000، 1200، 1600، 3000 اور 3500 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کردی گئی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp