9 مئی واقع کے بعد وجود میں آنے والی تحریک استحکام پاکستان پارٹی کی باگ دوڑ سنھبالی لیکن کچھ دنوں کے بعد پارٹی میں علیم خان کی شمولیت ہوئی اور انہیں پارٹی کا صدر بنا دیا گیا اور پارٹی ان کے حوالے کردی گئی۔
تحریک استحکام پارٹی نے مسلیم لیگ ن کو 13 قومی اور 22 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی فہرست دی تھی لیکن ابھی تک واضح نہیں ہوسکا کہ ن لیگ کس کس حلقے سے تحریک استحکام پارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرسکتی ہے۔ لیکن استحکام پارٹی کے کچھ رہنما نہ تو ن لیگ کی ٹکٹ یا ایڈجسٹمنٹ کے حق میں ہیں اور نہ ہی استحکام پارٹی کے نشان سے میدان میں اترنا چاہتے ہیں۔
پارٹی ذرائع کے مطابق استحکام پارٹی کے فرخ حبیب فیصل آباد سے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنا چاہتے ہیں، اسی طرح ہمایوں اختر بھی آزاد حیثیت سے انتخابات میں جانا چاہتے ہیں۔ یہ ایک طویل فہرست ہے جیسے نوریز شکور بھی تحریک استحکام پارٹی کے عقاب کا نشان نہیں لینا چاہتے، صمصام بخاری چیچہ وطنی سے آزاد حیثیت سے انتخابات میں جانا چاہتے ہیں اوکاڑہ سے احمد شاہ کھگہ بھی تحریک استحکام پارٹی کے نشان سے الیکشن نہیں لڑنا چاہتے۔ سعید اکبر نوانی بھکر سے آزاد الیکشن لڑنا چاہتے ہیں۔ یہ تمام رہنما اپنی پارٹی کے نشان سے الیکشن میں نہیں جانا چاہتے۔
مزید پڑھیں
’پارٹی کے نشان سے ووٹ ملے گا نہیں بلکہ ٹوٹے گا‘
تحریک استحکام پارٹی کے ایک رہنما جو اس وقت آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کے خواہاں ہیں، انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ اگر عقاب کا نشان لیکر عوام میں جائیں گے تو لوگ نہ صرف لوٹے لوٹے کا نعرہ لگائیں گے بلکہ پارٹی نشان پر ووٹ ملنے کے بجائے لوگ نفرت کا اظہار شہب کریں گے، اس لیے سوچ رہے ہیں کہ اپنی مدد آپ کے تحت الیکشن میں اترا جائے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا ہمارے حلقوں میں بہت ووٹ بینک ہے جسے صرف آزاد حثیت سے توڑا جا سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 2018 میں بھی ہم نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا تھا اور اب صورتحال ماضی سے بھی بُری ہوچکی ہے، اگر اب ہم تحریک استحکام پارٹی سے الیکشن لڑتے ہیں تو ہمارا جیتنا مشکل ہوجائے گا، ہاں اگر آزاد حیثیت سے عوام کے پاس جاتے ہیں تو کامیاب ہونے کے امکانات موجود ہیں۔
استحکام پارٹی کے رہنما کا مزید کہنا تھا کہ ہماری پارٹی کے قائدین ن لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے خواہش مند ہیں لیکن وہ بھی کچھ حلقوں میں جہاں پر ان کو فائدہ ہوسکے جیسے جہانگیر ترین کے ساتھ ن لیگ ملتان میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کو تیار ہے لیکن لودھراں میں نہیں، وہاں سے بھی جہانگیر ترین الیکشن لڑ رہے ہیں اور وہ وہاں سے ن لیگ کی حمایت کے بغیر کامیاب بھی ہوجائیں گے۔ ن لیگ مخالف بھی بہت ووٹ بینک ہے پنجاب کے مختلف حلقوں میں اس لیے ہم آزاد لڑنا چاہتے ہیں کہ ن لیگ کے خلاف الیکشن میں جائیں گے تو فائدہ ہوگا‘۔
انہوں نے کہا کہ 20 سیٹوں پر ضمنی الیکشن ہوا تھا حالانکہ ان 20 سیٹوں پر جو لوگ تھے وہ تقریباً آزاد حیثیت سے الیکشن جیت کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے لیکن ن لیگ کی ٹکٹ ان پر بھاری ثابت ہوئی تھی اس لیے کچھ رہنما آزاد حیثیت سے میدان میں اترنا چاہتے ہیں۔