مہنگائی اور روپے کی قدر میں کمی، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کیا کہتے ہیں؟

جمعرات 11 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ماہر معیشت اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپنے ایک خصوصی مضمون میں ملک کی معیشت کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے معیشت کی بہتری کے لیے تجاویز پیش کی ہیں۔

مفتاح اسماعیل نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ’ دسمبر 2023 میں کنزیومر پرائسس ایک سال قبل دسمبر کے مقابلے میں 29.7 فیصد زیادہ تھیں۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے ہر ماہ ہماری سالہسال کی مہنگائی کی شرح کے برابر 20 فیصد سے اوپر رہی ہے۔

تاہم حالیہ افراط زر کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو اس میں کچھ مثبت خبریں سامنے آئی تھیں۔ دسمبر میں قیمتوں میں نومبر کے مقابلے میں صرف 0.8 فیصد اضافہ ہوا، جو ایک سال میں دوسرا سب سے کم ماہانہ اضافہ تھا۔

جب کہ نومبر 2023 کی طرح قیمتوں میں اضافہ صرف گیس اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے دیکھا گیا- درحقیقت دسمبر میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی آئی ہے۔

مانیٹری پالیسی ہماری معیشت کا نچوڑ نکالنے میں کامیاب ہوئی

انہوں نے لکھا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اپنائی جانے والی سخت مانیٹری پالیسی بالآخر ہماری معیشت کا نچوڑ نکالنے میں کامیاب ہوگئی ہے اور ہمیں افراط زر اور شرح سود میں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔

پاکستان میں افراطِ زر کی شرح اتنی زیادہ کیوں ہے؟

لیکن پاکستان میں افراطِ زر کی شرح اتنی زیادہ کیوں ہے جبکہ عالمی سطح پر افراط زر کی شرح کبھی اتنی زیادہ نہیں ہوئی بلکہ مہینوں تک اس میں کمی ہی آئی ہے؟

انہوں نے لکھا کہ ’سمجھنے کے لیے آئیے ایک سادہ معیشت کا جائزہ لیتے ہیں جس میں مثال کے طور پر 3 فروخت کنندگان ایک کھانے کا پیکٹ فروخت کرتے ہیں اور 3 خریداروں میں سے ہر ایک کو حکومت کی جانب سے 100 روپے دیے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیکٹ 100 روپے میں ہی فروخت ہوں گے۔

اب اگر بیرون ملک ان کھانے پینے کے پیکٹوں کی قیمت ایک ڈالر ہے تو ہمارے پاس ایک ڈالر کا ایکسچینج ریٹ 100 روپے کے برابر ہوگا۔

اگر حکومت ہر صارف کو 200 روپے دیتی ہے اور ہمارے پاس اب بھی کھانے کے 3 پیکٹ دستیاب ہوتے تو کھانے کے ہر پیکٹ کی قیمت 200 روپے ہوتی۔

ایک بار پھر چونکہ کھانے پینے کے پیکٹ کی بین الاقوامی قیمت ایک ڈالر ہے، اس لیے روپے کی قدر میں 100 فیصد کمی واقع ہوتی اور ایک ڈالر کے مقابلے میں زرمبادلہ کی نئی برابری 200 روپے ہوتی۔

افراط زر کو کم کرنے کے لیے ہمیں بجٹ خسارے کو کم کرنا ہوگا

صرف ایک چیز جو ہماری معیشت میں بدلی وہ یہ تھی کہ اشیا کی قیمتیں ایک ہی شرح سے بڑھتی رہیں جس کے باعث ہماری مشکل یہ ہوئی کہ قیمت دوگنا ہو گئی اور روپے کی قدر میں کمی آ گئی۔

مفتاح اسماعیل نے لکھا کہ گزشتہ چند سالوں میں جیسے جیسے ہمارا بجٹ خسارہ بڑھتا جا رہا ہے، بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے ہم نے زیادہ سے زیادہ نوٹوں کی چھپائی کی جس سے روپوں نے اشیا کی قیمتوں کا اسی شرح سے تعاقب کیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمیں مسلسل افراط زر میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ہماری کرنسی سپلائی میں 100 فیصد اضافہ ہوا

مفتاح اسماعیل نے مزید لکھا کہ مالی سال 2018 کے آغاز کے بعد سے ساڑھے 5 سالوں میں ہماری کرنسی سپلائی میں 100 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے جس میں سب سے زیادہ اضافہ گزشتہ سال جنوری سے جون کے درمیان 6 ماہ کے عرصے میں دیکھنے کو ملا جب کہ فروری سے مئی تک ہماری معاشی تاریخ میں 4 مرتبہ ایسا ہوا کہ ہمیں ملک میں سب سے زیادہ مہنگائی کا سامنے کرنا پڑا۔  جس کے بعد سے کرنسی کی فراہمی میں تیزی سے ہوتے ہوئے اضافے میں کمی واقع ہونا شروع ہوئی اور اب ہم مہنگائی میں بھی کمی دیکھ رہے ہیں۔

کرنسی کی سپلائی میں اضافے کی دو اہم وجوہات یہ ہیں کہ جب نجی شعبہ بینکوں سے قرض لیتا ہے یا پھر جب حکومت اپنے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے قرض لیتی ہے۔

بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک شرح سود میں اضافہ کرتا ہے

چونکہ ہمارے نجی شعبے کے قرضے کم ہو رہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ بنیادی طور پر بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے رقم کی سپلائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ سے افراط زر میں اضافہ ہوا ہے اور اب اس افراط زر پر قابو پانے کے لیے اسٹیٹ بینک شرح سود میں اضافہ کر رہا ہے۔

 

مفتاح اسماعیل نے لکھا کہ ’ کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس ماڈل کا اطلاق پاکستان پر نہیں ہوتا یا یہ کہ ہمارا ماڈل ’ لاگت بڑھانے والا ‘ افراط زر ہے اور اس لیے اسٹیٹ بینک کو شرح سود میں اضافہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ تاہم اگر شرح سود افراط زر سے بہت کم ہے تو لوگ صرف زمین، سونا یا غیر ملکی کرنسی میں پیسہ انوسٹ کرنے کے لیے قرض نہیں لیں گے۔

مرکزی بینک مجموعی طلب اور قرضوں کو محدود کرنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ کام اسٹیٹ بینک نے ہمارے نجی شعبے کے معاملے میں کامیابی سے کیا ہے۔

ہماری حکومت بلند شرح سود کے باوجود خسارہ کم کرنے میں ناکام رہی

لیکن بدقسمتی سے ہماری حکومت بلند شرح سود کے باوجود قرضوں کی ادائیگیوں میں اضافے کی وجہ سے خسارے کو کم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے بجائے اس نے زیادہ قرض لیا ہے، جس کی وجہ سے کرنسی کی فراہمی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے ہی مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔

3 کنزیومر اور 3 کھانے کے پیکٹوں کی مثال کے ساتھ ہم اپنی سادہ معیشت کا جائزہ لیں تو ہم نے دیکھیں گے کہ جب پیسہ دوگنا ہو گیا، تو قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔

لیکن اگر کرنسی کی فراہمی دگنی ہونے پر کھانے کے پیکٹوں کی تعداد بھی دگنی ہو جاتی، تو قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہماری معیشت سامان اور خدمات کی پیداوار میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہوتی تو کرنسی کی فراہمی میں اضافہ ہوتا اور ہمیں مہنگائی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

بجٹ خسارے کو کم کرنے یا کرنسی کی فراہمی میں اضافے میں پاکستان زیادہ ماہر نہیں ہے۔  ہم سرکاری اخراجات کو کم کرنے اور معیشت کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے اپنے ملازمین کی صلاحیتوں کو استعمال کرنے میں تقریباً مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔

تعلیم اور فنی مہارتوں سے فائدہ اٹھانا ہماری ترجیحات نہیں رہیں

مفتاح اسماعیل نے لکھا کہ ’ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ قومی آمدنی (یا پیداوار) اس وقت بڑھتی ہے جب ملک میں مزدوری یا سرمائے میں اضافہ ہوتا ہے یا بنیادی طور پر جب فنی مہارتوں میں ترقی ہوتی ہے۔ یعنی جب ملک میں تعلیم، مہارتوں اور تکنیکی صلاحیتوں کے استعمال میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ ہمارے لیے کبھی ترجیح نہیں رہا ہے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں 5 سال سے کم عمر کے 58 فیصد بچے یا تو نشوونما پانے سے محروم ہیں یا ضائع ہو ہو رہے ہیں اور جہاں 10 سال کے 78 فیصد بچے ٹھیک سے پڑھ نہیں پاتے، پیداواری صلاحیت میں اس طرح کی بہتری ایک خواب ہی رہ جاتا ہے۔

امیج/ اسٹینفورڈ نیوز

ہماری معیشت میں تھوڑی بہت ترقی لیبرفورس کے ذریعہ ہوئی

اس لیے گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران ہماری جو تھوڑی بہت معاشی ترقی ہوئی ہے اس کی بنیادی وجہ ہماری لیبر فورس اور تھوڑا بہت سرمائے میں اضافہ ہے نہ کہ مہارت یا علم میں کسی بہتری کی وجہ سے معاشی بہتری آئی ہے۔

مفتاح اسماعیل نے لکھا کہ ’ تھوڑا سا پھر پیچھے چلتے ہیں کہ اگر ہماری سادہ معیشت کی بات کریں تو ہمارے ہاں کھانے پینے کے پیکٹوں کی قیمت اگرچہ 200 روپے ہے تو انہی پیکٹوں کی بین الاقوامی قیمت ایک ڈالر ہے اس لیے ہر ڈالر 200 روپے کا ہونا چاہیے۔

ڈالر 150 روپے پر فروخت ہوا تو برآمدات ختم ہو جائیں گی

اب اگر ہماری حکومت 150 روپے میں ڈالر فروخت کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان سے کھانے پینے کا کوئی پیکٹ برآمد نہیں کیا جا سکے گا اور پھر تاجر کھانے پینے کے یہ پیکٹ درآمد کرنے کی طرف جائیں گے۔

حکومتوں نے ووٹرز کو خوش رکھنے کے لیے برآمدات کو قربان کیا

مفتاح اسماعیل نے لکھا کہ پاکستان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے جب مختلف حکومتوں نے موجودہ قیمتوں کو کم رکھنے اور اپنے ووٹرز کو خوش رکھنے کے لیے برآمدات اور مینوفیکچرنگ کو قربان کیا تو ملک میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔( کہنے کا مطلب یہ نہیں لینا چاہیے کہ ہمیں اسمگلنگ یا حوالہ ہنڈی کو نہیں روکنا چاہیے۔ لیکن اسٹیٹ بینک کو روپے کو پہلے سے طے شدہ قیمت پر برقرار رکھنے کے لیے انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر فروخت نہیں کرنا چاہیے)

پاکستانی معیشت کا کوئی جادوئی حل نہیں ہے

ہمارے معاشی مسائل کا کوئی جادوئی حل تو نہیں ہے۔ ہم ایک غریب اور غیر تعلیم یافتہ ملک ہیں اور ہم اس وقت تک غریب ہی رہیں گے جب تک ہم تعلیم یافتہ نہیں ہو جاتے۔

مہنگائی کو کم کرنے کے لیے بجٹ خسارہ کم کرنا ہوگا

 تاہم ہمیں مہنگائی کو کم کرنے کے لیے بجٹ خسارے کو کم کرنا ہوگا۔ ترقی کے حصول کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے لوگوں میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی اور ان کی اور ملک کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنا ہوگا۔ ہمارے لیے مارکیٹ میں ایک لچکدار شرح تبادلہ کو برقرار رکھنا ضروری ہے تاکہ ہماری برآمدات میں اضافہ ہو سکے۔

معقول معاشی پالیسی بنانے سے انحراف شاید ہمیں قلیل مدتی ریلیف تو مل سکتا ہے، لیکن جیسا کہ ہمیشہ ہوتا رہا ہے، اس سے طویل مدتی نقصان بھی ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp