ایک ایسے وقت میں کہ جب اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی کے الزامات کا عالمی عدالت انصاف میں سامنا ہے، امریکا اور برطانیہ نے یمن میں حوثیوں کے خلاف نیا محاذ کھولتے ہوئے یمن کے مختلف شہروں پر حملہ کیا ہے، فوری طور پر ہلاکتوں کا کوئی اندازہ نہیں لگایا جاسکا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکا اور برطانیہ کے لڑاکا طیاروں، بحری جہازوں اور آبدوزوں کی مدد سے یمن کے دارالحکومت صنعا، بندرگاہی شہر حدیدہ اور شمالی شہر سعدہ میں مختلف مقامات پر بمباری کی گئی ہے، جن میں ٹوما ہاک میزائلوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
برطانوی وزیر دفاع گرانٹ شیپس کا کہنا ہے کہ رائل ایئر فورس کے 4 ٹائیفون جیٹ طیاروں نے یمن میں حوثی عسکری اہداف پر ٹھیک حملے کیے ہیں، ایکس پر پوسٹ کیے ان کے پیغام کے مطابق مذکورہ کارروائی نہ صرف ناگزیر تھی بلکہ ’معصوم زندگیوں اور عالمی تجارت‘ کو حوثی باغیوں کے بحیرہ احمر میں حملوں کی صورت میں لاحق خطرات کے پیش نظر ان کا فرض بھی۔
Four @RoyalAirForce Typhoons have conducted precision strikes on two Houthi military targets alongside US forces.
The threat to innocent lives and global trade has become so great that this action was not only necessary, it was our duty to protect vessels & freedom of navigation pic.twitter.com/tbN7ncJYpF
— Rt Hon Grant Shapps MP (@grantshapps) January 12, 2024
میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکا اور برطانیہ نے یمن میں ان عسکری اہداف کو نشانہ بنایا ہے، جن کا تعلق حوثی جنگجوؤں سے ہے، یہ ایران کے حمایت یافتہ گروپ پر پہلا فوجی حملہ ہے جب سے اس نے غزہ کے جنگ زدہ فلسطینیوں کی حمایت میں بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں پر حملے شروع کیے ہیں۔
امریکی اور برطانوی حکومتوں کے مطابق ان کی متعلقہ افواج نے یمن کے حوثی جنگجوؤں کے خلاف ہوائی، بحری جہاز اور آبدوز حملے شروع کیے ہیں جو ہتھیاروں کے ذخیرے، فضائی دفاع اور لاجسٹک تنصیبات کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
حملوں کے بعد اپنے بیان میں برطانیہ کے وزیراعظم رشی سونک نے کہا کہ حوثیوں کو جہازوں پر حملوں سے کئی بار خبردار کیا گیا تھا اور یہ صورتحال برداشت نہیں کی جاسکتی تھی، امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ یہ حملے بحر احمر میں بین الاقوامی جہازوں پر ان حملوں کا جواب ہیں جن میں پہلی بار اینٹی شپ بیلسٹک میزائل بھی استعمال کیے گئے تھے۔