ایڈووکیٹ سرون کمار بھیل کا تعلق ضلع تھر پارکر کی تحصیل مٹھی سے ہے اور وہ شیڈول کاسٹ بھیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہندو اقلیت ہونے کے باوجود سندھ کے بعض علاقوں میں اکثریت میں ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں پر برہمن قابض ہیں۔
سرون کمار بھیل نے بتایا کہ پاکستان میں ہندوؤں کی زیادہ تر آبادی شیڈول کاسٹ پر مشتمل ہے لیکن پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں خواہ وہ مسلم لیگ ن ہو، پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف یا ایم کیو ایم، سب جماعتوں میں اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر برہمن قابض ہیں اور سب ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
’۔۔۔رمیش کمار وانکوانی، کھیل داس کوہستانی یہ سب آپس میں رشتے دار ہیں اور سیاسی جماعتوں پر قابض ہیں جبکہ پچانوے فیصد ہندو جو شیڈول کاسٹ سے ہیں وہ سیاسی مناصب پر نہیں پہنچ پاتے۔‘
سرون کمار بھیل کے مطابق برہمن ہندو نہ صرف سیاست بلکہ مذہب کے بھی ٹھیکے دار ہیں، مندروں کی کمیٹی کہ یہ انچارج ہیں جبکہ شیڈول کاسٹ ہندوؤں کو ان کے مندروں میں گھسنے نہیں دیا جاتا۔ مندروں میں لنگر کی تقسیم کے وقت بھی برہمن ہندوؤں کو اعلیٰ قسم کا کھانا جبکہ شیڈول کاسٹ ہندوؤں کو دال چاول پر ٹرخا دیا جاتا ہے۔
امتیازی سلوک پر بات کرتے ہوئے سرون کمار بھیل نے بتایا کہ ان کے علاقے میں شیڈول کاسٹ مجسٹریٹ بن گیا جبکہ ایک برہمن ہندو کا مقدمہ جب بھی اس کے پاس لگتا تو وہ سیشن جج سے کہہ کر دوسری عدالت میں منتقل کرواتا تھا، اس رویے سے متعلق اس نے انکوائری میں بتایا کہ وہ شیڈول کاسٹ جج کو می لارڈ نہیں کہہ سکتا۔
’پہلے ملک بھر کے سارے ہندوؤں کو ایک حلقہ بنا کر ان کے نمائندے منتخب کیے جاتے تھے تو شیڈول کاسٹ کے لوگ بھی پارلیمنٹ پہنچ جاتے تھے لیکن جنرل مشرف کے زمانے سے جب سے مخصوص نشستوں کا تصور آیا تو برہمن جو کہ سیاسی جماعتوں کے انویسٹر بھی ہیں انہوں نے ہندوؤں کی نمائندگی کے نام پر سیاست پر قبضہ کر لیا ہے۔‘
سرون کمار بھیل نے سیاسی جماعتوں سے اس معاملے کا نوٹس لینے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان جیسے ہندو اس دھرتی کے اصل وارث ہیں کیونکہ وہ کہیں باہر سے نہیں آئے، ان کا کہنا تھا کہ شیڈول کاسٹ سے جوگندر ناتھ منڈل پاکستان کے پہلے وزیر قانون تھے۔