لیول پلیئنگ فیلڈ کے لیے عدالت گئے لیکن ہم سے فیلڈ ہی چھین لی گئی، لطیف کھوسہ

پیر 15 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ ہم سے بلے کا نشان چھین لیا گیا، ہم نے پی ٹی آئی نظریاتی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنا چاہا لیکن چیئرمین پی ٹی آئی نظریاتی کو اٹھا لیا گیا اور ان سے ٹی وی پر بیان دلوایا گیا کہ انہوں نے تحریک انصاف سے کوئی معاہدہ نہیں کیا ہے، لیول پلیئنگ کے لیے عدالت گئے اور ہم سے فیلڈ ہی چھین لی گئی۔

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں پی ٹی آئی رہنما لطیف کھوسہ نے کہا کہ کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے دوران پی ٹی آئی امیدواروں کو گرفتار کر لیا جاتا تھا، یہ عمل 20 دسمبر سے 24 دسمبر تک جاری رہا، سارے پاکستان میں پی ٹی آئی امیدواروں کے ساتھ یہ عمل چلتا رہا، اس کے 25 سے 30 دسمبر کے دوران کاغذات نامزدگی کی اسکروٹنی کے دوران بھی یہی کچھ چلتا رہا،پی ٹی آئی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کو پھاڑا گیا، ان پر تشدد کیا۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ایم پی او لگا کر تحریک انصاف کے امیدواروں کو گرفتار کیا گیا، ڈپٹی کمشنرز کے خالی پرفاموں میں تحریک انصاف کے امیدوار کا صرف نام لکھ کر اسے گرفتار کرلیا جاتا تھا، امیدواروں کو ایک مہینے کے لیے ایم پی او کے تحت نظر بند کیا جاتا رہا۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کو جلسے جلوس نہیں کرنے دیے گئے، جو پی ٹی آئی رہنما جلسہ کرنے کی کوشش کرتا اس کے گھر کو اڑا دیتے ہیں، مسمار کر دیتے ہیں، اس کا کاروبار بند کردیتے ہیں اور اغوا کرکے اس کو پابند سلاسل کردیا جاتا ہے، ہم نے رٹ دائر کر کے کئی امیدواروں کی جان چھڑائی۔

’اس کے بعد ہم سپریم کورٹ میں گئے کہ آپ نے کیسا حکم دیا تھا 22 دسمبر 2023 کو کہ سب کو شفاف الیکشن اور لیول پلیئنگ فیلڈ دی جائے، ہم سپریم کورٹ میں گئے تو ہمیں کہا گیا کہ آئی جی اور چیف سیکریٹری اور ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کو بلائیں، یہ لوگ آئے اور کہا کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں، کوئی بدمزگی نہیں ہوئی، یعنی اس سے بڑا مذاق کیا ہوسکتا ہے کہ میرے بیٹے کو گرفتار کر لے پابندسلال کیا گیا جو سپریم کورٹ کا وکیل بھی ہے۔‘

لطیف کھوسہ نے کہا کہ اس کے بعد ہمیں بلے کا نشان بھی نہیں دیا گیا، الیکشن کمیشن اتنا بددیانت اور بدنیت ہے کہ عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس جیل میں جاکر دیتے ہیں، عین الیکشن کے موقع پر تحریک انصاف سے نشان چھین لیا جاتا ہے، پشاور ہائیکورٹ نے ہمیں بلے کا نشان واپس کیا تو اس کے خلاف الیکشن کمیشن دوبارہ سپریم کورٹ میں گیا پھر تحریک انصاف سے بلا چھین لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے حکم کے مطابق 20 دن میں الیکشن کروائے ہیں، 13 لوگ پی ٹی آئی کے ممبرز ہی نہیں ہیں، انہوں نے جھوٹ بولا، اکبرایس بابر عمران خان کے ادنی سے کارکن کے برابر بھی نہیں ہیں، دوسری جماعتوں کے لیے ایسا کیوں نہیں ہوتا، کیا بلاول بھٹو، آصف علی زرداری یا نواز شریف کے مقابلے میں کسی پارٹی کارکن نے الیکشن لڑنا چاہا؟

’چیف جسٹس سے یہی عرض کیا ہے کہ کیا یہی لیول پلیئنگ فیلڈ ہے کہ ایک جماعت کو نشان ملا ہوا تھا، آپ نے ساڑھے 12 بجے نشان واپس لے لیا، الیکشن کمیشن نے ہمارے امیدواروں کو آزاد تصور کرتے ہوئے کسی کو مور دے دیا، کسی کو فاختہ دے دی، کسی کو گھڑیال دے دیا، پی ٹی آئی کو 230 مخصوص نشستوں سے محروم کیا گیا۔‘

انہوں نے کہا کہ جو ہم نے الیکٹورل الائنس کیا تھا کہ ہم الیکشن پی ٹی آئی نظریاتی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑیں گے، جس نے تحریک انصاف کے ساتھ معاہدہ بھی کرلیا تھا، اس کے بعد پی ٹی آئی نظریاتی کے چیئرمین کو اٹھا لیا جاتا ہے اور پھر اس کو ٹی وی پر لاکر بیان دلوایا جاتا ہے کہ اس نے کوئی معاہدہ نہیں کیا۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ چیف جسٹس کے پاس آرٹیکل 187 کے اختیارات ہیں، اگر وہ اس ملک کو بچانا چاہتے ہیں تو وہ اس آرٹیکل کا استعمال کریں، چیف جسٹس نے لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کی تھی تو انہوں نے ہم نے فیلڈ کی چھین لی ہے، ‏ہمیں آپ سے انصاف کی توقع تھی، لیکن عدالت سے انصاف ہوتا نظر نہیں آرہا، اس لیے ہم اپنی درخواست واپس لیتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا  ہم 25 کروڑ عوام کی عدالت میں جارہے ہیں، ہمارا جو بھی نشان ہوگا وہ ہمیں 8 فروری کو کامیاب کروائیں گے۔ الیکشن بوتھ پر وکیل پہرا دیں گے اور عوام کے ووٹ پر ڈاکہ نہیں ڈالنے دیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp