گزشتہ روز ایران کی جانب سے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی پر حکومت پاکستان نے سخت اقدامات کرتے ہوئے ایران کے تمام دورے ملتوی کر دیے جبکہ پاکستان نے اپنا سفیر واپس بلانے کا اعلان کرکے ایرانی سفیر کو بھی ملک سے نکل جانے کا حکم دے دیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھنے سے اس بات کا خدشہ ہے پاک ایران سرحد بھی بند ہو جائے گی۔
ایران اور پاکستان کے درمیان حالیہ صورتحال کے کاروبار پر پڑھنے والے اثرات سے متعلق وی نیوز سے بات کرتے ہوئے آغا گل خلجی سنیئر وائس پریزیڈنٹ ایوان صنعت و تجارت بلوچستان نے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ایران کی سرحد بند ہونے سے بلوچستان کی سرحدی تجارت پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔
آغا گل خلجی کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ایران اس وقت سالانہ 80 سے 85 ارب روپے کا ریونیو حاصل کر رہا ہے اگر سرحد بند ہو جائے تو ریونیو 20 ارب روپے تک نہیں حاصل ہوسکے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مسئلہ یہ ہے بلوچستان کا دارومدار سرحدی تجارت پر محیط ہے افغان سرحد پہلے سے ہی بند ہے ایسے میں اگر ایرانی سرحد بھی بند ہو گئی تو کاروبار کی صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔
اشیا مہنگی ہونے، بیروزگاری بڑھنے کا خدشہ
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ضلع پنجگور کے رہائشی برکت مری نے کہا کہ پنجگور کی آبادی کا 80 فیصد سرحدی تجارت سے اپنا گزر بسر کر رہا ہے اگر پاک ایران سرحد بند ہو جاتی ہے تو علاقے میں امن و امان کا مسئلہ جنم لے گا اور لوگ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے چوری چکاری کرنے لگیں گے۔
برکت مری کا کہنا تھا کہ ماضی میں حکومت نے ایران سے اشیا خورونوش کی خریداری پر پابندی عائد کی تھی جس کے باعث اب صورتحال یہ ہے کہ ایرانی سرحدی علاقوں میں آٹے کی 40 کلو والی بوری 15 سو روپے میں دستیاب ہے جبکہ پاکستانی آٹے کی بوری 6 ہزار روپے میں میسر ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عام آدمی کی مشکلات پہلے سے ہی زیادہ ہیں اور ایسے میں سرحد بھی بند ہوگئی تو پنجگور کے رہائشیوں پر فاقوں کے دروازے کھل جائیں گے۔
مزید پڑھیں
انہوں نے کہا کہ پنجگور کے نوجوان ایران اور پاکستان سامان لاتے لے جاتے ہیں ایسے میں کئی دنوں کی محنت کے بعد صرف 10 سے 15 ہزار روپے ان کے حصے میں آتے ہیں ایسے میں اگر سرحد بند ہو گئی تو یہ نوجوان بے روزگار ہو جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دوسری جانب ایرانی تیل کے کاروبار پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
’ایرانی تیل بند ہونے سے تمام اشیا کی قیمتوں میں آگ لگ جائے گی‘
تربت سے تعلق رکھنے والے شہری ایاز اسلم نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ شہر کا مکمل انحصار ایرانی اسمگل شدہ پیٹرول اور ڈیزل پر ہے اور اگر سرحد بند ہو گئی تو تربت میں ڈیزل اور پیٹرول ناپید ہو جائیں گے اور اگر ذخیرہ اندوزوں نے پیٹرول اور ڈیزل ذخیرہ کرلیا تو وہ منہ مانگی قیمت وصول کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ایران سے دیگر اشیا خورونوش بھی ایران سے لائی جاتی ہیں ایسے میں شہری مہنگے داموں پاکستانی اشیا خریدنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کوئٹہ کے دکاندار عثمان یوسف زئی ہوئے کہا کہ ایرانی سرحد بند ہو جانے سے ایرانی پیٹرول کی قیمت 200 روپے فی لیٹر سے بڑھ کر ڈھائی سو روپے تک جا پہنچے گی جس سے براہ راست اشیا خورونوش کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ ایران سے آنے والے خشک مصالحہ جات، میوہ جات، بیکری ائٹم اور ایل پی جی سمیت دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں گی۔