پاک ایران کشیدگی کس طرح کم کی جا سکتی ہے؟

جمعرات 18 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ایران کی جانب سے 17 جنوری کی شب پاکستان پر میزائل حملے کے جواب میں افواج پاکستان نے ایرانی سرحد کے اندر آپریشن ’مرگ بر سرمچار ‘ کا آغاز کر کے کئی دہشت گردوں کو ہلاک کیا جس کے نتیجے میں پاکستان اور ایران کے درمیان کشیدگی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے اور دونوں ممالک کی تاریخ میں پہلی بار سفارتی تعلقات منقطع ہوئے ہیں۔

 جمعرا ت کو ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا کہ ایران میں موجود کالعدم گروہوں کے خلاف پاکستان کے حملوں کا ہدف ایران نہیں بلکہ دہشت گرد گروہوں کی محفوظ پناہ گاہیں تھیں۔

 وی نیوز کے سوال کہ کیا دونوں ملکوں کے درمیاں تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بھی کوئی اقدام کیا جا رہا ہے اور آیا کوئی سفارتی پیغام رسانی جاری ہے، کے جواب میں ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ فی الوقت وہ ایسی کسی بھی پیغام رسانی سے لاعلم ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیاں مذاکرات کے لیے کسی تیسرے ملک کی ثالثی کے بارے میں بھی کوئی اطلاع نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ دونوں برادار پڑوسی ممالک کے درمیاں تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کیا کوششیں کرنی چاہییں، اس حوالے سے وی نیوز نے سابق سفارتکاروں سے بات کی ہے۔

پاکستان اور ایران تنازع کو بڑھانا نہیں چاہتے، سابق سفیر

سابق سفیر مسعود خالد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کی جس پر پاکستان نے بھی ایران پر واضح کر دیا تھا کہ ہم اس پر ایکشن لیں گے۔

 پاکستان نے اب وہ ایکشن لے لیاہے جس کے ذریعے سے پیغام دینا مقصود تھا کہ پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کے خلاف کوئی بھی اقدام ہوگا تو اس کا جواب دیا جائے گا۔

سابق سفیر مسعود خالد نے کہا کہ نہ ہم اور نہ ایران اس تنازع کو بڑھانا چاہتے ہیں۔ ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور اس کے ساتھ ہمارے تاریخی تعلقات ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مشرقِ وسطٰی کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہماری سرحدیں محفوظ ہوں اور اس کے لیے ہمیں ایران کے ساتھ معاملات ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے لیکن ابھی چونکہ تازہ واقعات ہیں اس لیے ان کے حل میں کچھ وقت لگے گا۔

پاکستان اور ایران کو کسی ثالث کی ضرورت نہیں

سابق سفیر مسعود خالد کا مزید کہنا تھا کہ ان کے خیال میں اس معاملے میں ثالثی کی کوئی ضرورت نہیں۔ دونوں ملکوں کو احساس ہے اور دونوں ملک اس معاملے کو دو طرفہ طریقے سے حل کر لیں گے۔

جواب دینا ضروری تھا، اب تعلقات کو معمول پر لایا جانا چاہیے، نغمانہ ہاشمی  

پاکستان کی سابق سفیر نغمانہ ہاشمی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ایران دونوں جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے اور دونوں کو خطے میں گریٹر گیم کا حصہ نہ بننے کے لیے فوری طور پر اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششیں کرنی چاہییں اور اب تک تو بیک چینل ڈپلومیسی شروع ہو جانی چاہیے جب چین بھی دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کی سہولت کاری کے لیے تیار ہے۔

ایران کی جانب سے پاکستانی سرحد کے اندر حملے پر بات کرتے ہوئے نغمانہ ہاشمی نے کہا کہ یہ جو بدقسمت واقعہ ہوا، اس کے 2 پہلو ہیں، ایک تو یہ کہ اس واقعے کو لے کر پاکستانی عوام اور حکومت کے اندر بہت غم و غصہ پایا جاتا تھا کیونکہ ایران کے ساتھ ہمارے دیرینہ تاریخی، مذہبی اور ثقافتی تعلقات ہیں۔

بہتر طریقہ یہ تھا کہ ایران کو اگر پاکستان میں مبینہ طور پر موجود دہشت گردوں کے بارے میں شکایات تھیں تو وہ پاکستان کو اس حوالے سے آگاہ کرتا یا پاکستان اور ایران مل کر مشترکہ فوجی آپریشن کرتے۔

لیکن ایران نے یک طرفہ اقدام کر لیا تو پاکستان کو بحرحال اس کا جواب تو دینا تھا۔ اگر پاکستان خاموشی اختیار کر لیتا تو دوسرے ممالک خاص طور پر بھارت کو موقع مل جاتا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کے نام پر پاکستان کے اندر فوجی کارروائیاں کرنے پر تل جاتا۔ اس لیے پاکستان کی جانب سے اس حملے کا جواب دینا ازحد ضروری تھا۔

سفیروں کو واپس نہیں بلانا چاہیے تھا

نغمانہ ہاشمی نے کہا کہ ان کی ذاتی رائے میں سفیروں کو واپس بلا کر انتہائی قدم اٹھایا گیا جو کہ نہیں اٹھایا جانا چاہیے تھا۔ 1965 کی جنگ کے دوران بھی پاکستان اور بھارت کے سفیر ایک دوسرے کے ممالک میں موجود تھے کیونکہ جب آپ نے دوسرے ملک سے مذاکرات کرنے ہیں تو ضروری ہوتا ہے کہ وہاں ایک ناظم الامور کی بجائے سینیئر سفارتکار موجود ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ رونما ہو چکا ہے لیکن اب ہمیں اس سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور ہمارے دوست ممالک خاص طور پر چین ہمیں اسی بات کا مشورہ دے رہا ہے۔

نغمانہ ہاشمی کا کہنا تھا کہ اس خطے میں پہلے سے بہت زیادہ بے چینی اور مسائل ہیں اور ہمیں حالات کو مزید بگڑنے سے بچانا چاہیے جس میں دونوں ملکوں کا مفاد ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp