1990 میں اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کا ساتھ دینے کے لیے شدید دباؤ ڈالا، مولانا فضل الرحمان

جمعہ 19 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام نے ماضی میں سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف غیر مذہبی اور سیکولر جماعتوں سے اتحاد کیا، ہم غریب عوام اور مزدوروں کے حقوق کی بات کرتے تھے۔ سرمایہ دارانہ نظام اسلام سے مطابقت نہیں رکھتا، ہمیں کمیونزم اور روس کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔

جمعرات کو ایک ٹی وی انٹرویو میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اردو ہماری رابطے کی زبان ہے، میں زیادہ تر ملتان میں رہا اس لیے گھر میں اردو تجربات سے سیکھی، اگر ہم غلط لفظ بول جائیں تو وہ میڈیا میں ہمارے لیے وبال بن جاتا ہے، ڈیرہ اسماعیل خان اور ملتان میں زیادہ تر سرائیکی ہی بولی جاتی ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے کچھ سوالوں کے جواب سرائیکی زبان میں دیے، ان کا کہنا تھا کہ ہم گھر میں پشتو ہی بولتے ہیں۔ ہماری پیدائش مروت قبیلے میں ہوئی ہے، ہماری قوم زیادہ تر بلوچستان اور افغانستان میں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب میں نے 25 سال کی عمر میں جماعت کا منصب سنبھالا تو میرے لیے کافی مشکل تھا، لیکن والد کے اکابرین نے سمجھایا کہ جماعت کی قیادت آپ نے ہی سنبھالنی ہے۔  مجھے جماعت کے اکابرین، نوجوانوں نے بھرپور ساتھ دیا۔

مذہبی جماعتوں کے ساتھ الحاق کی بجائے سیکولر جماعتوں کے ساتھ الحاق کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ 1919 میں جب برصغیر پاک وہند میں جمعیت علمائے اسلام بنی تو اس وقت اس جماعت میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام شامل تھے۔

بعد میں حالات بدلتے گئے اور لوگ اپنے اپنے پلیٹ فارم پر چلے گئے، یہ جماعت پورے وطن کے لیے بنائی گئی تھی، اس وقت تعصبات نہیں تھے، ہم نے اس میں سب سے زیادہ ایک چیز دیکھی کہ نظریات میں سیاسی طور پر ہمارے قریب کون لوگ ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام ایک مغربی نظریہ ہے، یہ تصور مغرب نے پیش کیا ہے، اسلام اس نظریے کے خلاف ہے، فرانس میں کمیونزم کے نام سے جو انقلاب برپا ہوا وہ بھی اسی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف برپا ہوا۔ سرمایہ دارانہ اس نظام نے ہمیں بھی کنگال کر دیا تھا۔

اب فطری طور پر ہونا چاہیے یہ تھا کہ ہمیں کمیونزم اور روس کے قریب ہونا چاہیے تھا۔ لیکن خدا کے انکار کے نام پر ہم مغرب کی طرف چلے گئے اور روس کو کفر کہہ دیا، یہ چیزین ہماری مذہبی دُنیا نے قبول کر لیں جو جمعیت علمائے اسلام کے مزاج کے مطابق محرک نہیں تھیں۔

جمعیت علمائے اسلام نے اپنے مزاج کے مطابق ان جماعتوں کے ساتھ الحاق کی کوشش کی جو غربت کے خلاف لڑنے اور مزدور کو حقوق دینے کی بات کرتی تھیں، ہم غریب کی بات کرتے تھے اور سرماریہ دارانہ اور جاگردارانہ نظام کی مخالفت کرتے تھے۔ ان جماعتوں کے ساتھ ہم نے معاہدے بھی کیے، ہم نے نیشنل پارٹی کے ساتھ بھی اتحاد کیا اور دیگر جماعتوں کے ساتھ بھی اتحاد کیا۔

سیاست میں مسلکی جزیات کا عمل درآمد نہیں ہوتا آپ کو ملک اور قوم کو بنانا ہوتا ہے، 2 چیزیں اسلام میں اہم ہیں ایک انسانی حقوق جس کو ہم امن کے نام سے تعبیر کر سکتے ہیں  اور دوسرا ہے معاشی نظام، یہ دو چیزیں ملک کو مل جائیں تو اس پر اتفاق رائے ہو جاتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ میں 1988 میں جب بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت بنی تو الیکشن سے پہلے انہیں مشورہ دیا تھا کہ ’ ایم آر ڈی ‘ کو نہ توڑیں کیوں کہ ضیا الحق کے خلاف ہم نے مل کر جدوجہد کی تھی، جیلیں کاٹیں، تکلیفیں سہی۔

اگرچہ پیپلز پارٹی کے کلچر اور علما کے کلچر میں موافقت نہیں تھی، اس وقت ہم پیپلز پارٹی کے ساتھ دباؤ میں چل رہے تھے، اسٹیبلشمنٹ کی خواہش تھی کہ ہم میاں محمد نواز شریف کا ساتھ دیں۔

اقتدار حاصل کرنے والے چیزیں جلدی قبول کرلیتے ہیں لیکن ہم جیسے نظریاتی لوگوں کے لیے چیزیں فوری قبول کرلینا کافی مشکل ہوتا ہے۔ عدم اعتماد میں ہم شامل تو تھے لیکن اس ماحول میں ہم اجنبی اجنبی سے تھے۔ عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔

ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اس وقت مجھ پر سخت دباؤ ڈالا گیا کہ میں میاں محمد نواز شریف کا ساتھ دوں۔ ہمارے باہر کے ممالک کے کچھ دوست بھی میرے پاس آئے تو میں نے ان کی بات بھی نہیں مانی۔ جب میں نے کوئی بات نہیں مانی تو ان لوگوں نے اس کے بعد ہمیں اپنا دشمن سمجھ لیا۔

1990 کے الیکشن کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے مجھ پر گٹیا الزامات لگائے، میڈیا میں میرے خلاف مہم شروع ہو گئی، ہمیں خود پر اعتماد تھا۔ جھوٹے پروپیگنڈے کیا گیا، ہم نے یہ سب کچھ برداشت کیا جس کی وجہ سے ہم آج بہتر سیاست کر رہے ہیں۔ جب ہم نے ڈٹ کر سیاست کی تو انہیں مجبوراً میثاق جمہوریت کرنا پڑا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp