عمران خان کیخلاف گواہی، استحکام پارٹی میں شمولیت سے انکار پر طویل روپوشی کاٹنی پڑی، مسرت جمشید چیمہ

ہفتہ 20 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما مسرت جمشید چیمہ نے کہا ہے کہ انہوں نے جیل میں بڑے مشکل دن دیکھے اور پھر انہیں پریس کانفرنس کے لیے جو  کہا گیا تھا وہ انہوں نے کی لیکن بعد میں ان کا مطالبہ تھا کہ عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنو اور استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کرلو تاہم اس بات سے انہوں نے انکار کردیا اور اب بھی پی ٹی آئی کا حصہ ہیں جس کی وجہ سے طویل عرصہ روپوشی میں گزارنا پڑا۔

سات آٹھ ماہ روپوش رہنے والی مسرت جمشید چیمہ اب منظر عام پر آچکی ہیں۔ وی نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں گلگت بلتستان ہاؤس اسلام آباد سے گرفتار کرکے اڈیالہ جیل میں رکھا گیا تھا جہاں ڈاکٹر شیریں مزاری بھی مقید تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ اسیری کے دن بہت مشکل تھے وہ جیل میں تسبیح پڑھتی رہتی تھیں یا پھر اپنی ڈائری میں کچھ لکھتی رہتی تھیں پھر انہیں پریس کانفرنس کر نے کے لیے کہا گیا جس کے دوران ہم نے سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا لیکن ان کی ڈیمانڈز بہت زیادہ تھیں۔

مسرت جمشید چیمہ نے کہا کہ ہمیں پھر سے گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مارے جارہے تھے وہ چاہتے تھے  کہ میں عمران خان کے خلاف گواہی دوں اور تحریک استحکام پارٹی  میں اور میرے میاں جوائن کر لیں ہم نے ایسا نہ کیا تو ہمیں پھر گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوش ہونا پڑا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے بارے میں خبریں چلائیں گئیں کہ ہم نے تحریک استحکام پارٹی جوائن کر لی ہے جس کی میں نےتردید کی، میرا ان سے شدید نظریاتی اختلاف ہے لہٰذا میں اب بھی تحریک انصاف میں ہوں  اور رہوں گی۔

’مریم نواز کی طرح فرائی پین سے کپڑے استری کرنے کا تجربہ نہیں کیا‘

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مسرت جمشید چیمہ کا کہنا تھا کہ  جیل میں مریم نواز کی طرح فرائی پین کے ذریعے کپڑے تو استری نہیں کیے، مریم نواز تو اڈیالہ جیل کی ٹرینگ سینٹر میں تھیں میں نے جیل میں جاکر وہ جگہ دیکھی وہ بڑا سا ہال تھا اٹیچ اچھا والا واش روم تھا  جہاں پر مریم نواز قید تھیں ہمارے پاس تو ایسا کچھ نہیں تھا اور ہمیں تو جیل میں ملنے والے بنیادی انسانی حقوق تک نہیں دیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ’جیل میں میری طبعیت کافی خراب ہوگئی تھی میں اسیری اور روپوشی میں گزارنے والے واقعات ہر ایک کتاب لکھوں گی اور اس میں عوام کو سب سچ بتاؤں گی، جیل میں ہمارے سے کوئی مشقت نہیں کروائی گئی‘۔

کاغذات نامزدگی واپس لینے کے پچھے کیا کہانی تھی؟

مسرت جمشید چیمہ کا کہنا تھا کہ جس پارٹی کے لیے ہم نے اتنی قربانیاں دیں اس پارٹی کے سربراہ نے تو کہا تھا کہ مجھے اور جمشید چیمہ کو ٹکٹ دیا جائے، عمران خان کے کہنے پر ہی میں نے کاعذات نامزدگی جمع کروائے تھے، ٹکٹ دینے کے معاملے پر کچھ لوگ باہر اپنی مرضیاں چلاتے رہے ہیں جنہوں نے ویڈیوز بنائیں پریس کانفرنسز کی ان کو ٹکٹ دے دیا گیا، مجھے نہیں دیا گیا لیکن مجھے اس بات کا کوئی رنج نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی کتاب میں وہاں ہی ہوں جہاں میں پہلے تھی، عمران خان کچھ اور کہہ رہے ہیں اور باہر والے کچھ اور فیصلے کر رہے ہیں آزاد الیکشن لڑنے کا پلان نہیں تھا۔

’بیرسٹر گوہر خان پارٹی میں سب کو جانتے بھی نہیں ہیں‘

ایک سوال کے جواب مسرت جمشید کا کہنا تھا کہ بیرسٹر گوہر خان پارٹی میں سب کو جانتے بھی نہیں ہیں وہ ایک شریف آدمی ہیں، ہمیں ٹکٹ نہ دینے کا فیصلہ برسٹر گوہر کا نہیں کچھ اور لوگ اس کے پیچھے تھے۔

’شیر افضل مروت اور رؤف حسن کو پتا نہیں کہ قربانی کیا ہوتی ہے‘

مسرت جمشید چیمہ کا کہنا تھا کہ شیر افضل مروت اور رؤف حسن نے وہ تکلیفیں نہیں جھیلیں جو عمران خان جیل میں بیٹھ کر جھیل رہے ہیں، عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو توہین آمیز ریمارکس نہیں دینے چاہییں، رؤف حسن کو احتیاط کا دامن اختیار کرنا چاہیے تھا ایک بندہ گراؤنڈ ورک کر رہا ہے اس پر حملہ کر دینا یہ اچھی بات نہیں ہے ایک پارٹی پہلے ہی مشکل میں ہے اور اوپر سب سے پارٹی کے اندر کے لوگ بھی دست و گریبان ہو جائیں تو یہ اچھی بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ رؤف حسن اچھے وقت میں ساتھ تھے اور اب انہیں پارٹی نے عزت دی ہے تو انہیں گریس کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ جب مجھے عمران خان کا ترجمان لگایا گیا تھا تو میں بہت احتیاط سے گفتگو کرتی تھی کہ میرے کسی ایک بیان پر اس کی قمیت ہمارے لیڈر کو ادا کرنا پڑ سکتی ہے جس پر تاریخ معاف نہیں کرتی۔ میری پارٹی میں بہت سی لڑائیاں تھیں لیکن میں نے کیمرے کے سامنے آکر ان کے خلاف کبھی برائیاں نہیں کیں نہ ہی کبھی عمران خان کو کچھ بتایا۔

’عثمان بزدار کم ظرف نکلے‘

مسرت جمشید چیمہ نے کہا کہ جو لوگ پارٹی چھوڑا کرگئے مجھے ان کا دکھ ہے کچھ لوگوں کی مجبوریاں بھی تھیں لیکن جن کو خان صاحب وزیر اعلیٰ بنایا گورنر بنایا وہ بھی چھوڑ کر چلے گئے۔ انہوں نے کہا کہ عثمان بزدار کو عمران خان نے وزیر اعلیٰ بنایا لیکن انہوں نے پارٹی چھوڑنے میں ایک منٹ نہیں لگایا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم عثمان بزدار کی نالائقیوں اور نااہلی کا دفاع کرتے نہیں تھکتے تھے وہ بھی خان کو چھوڑ گئے۔ عثمان بزدار کا کوئی سیاسی قد کاٹھ نہیں، ان پر کوئی مشکل وقت بھی نہیں آیا نہ ان کا کوئی کاروبار تھا بہت سے ایسے لوگوں نے مایوس کیا ہے یہ خدا کی طرف سے پارٹی پر ایک فلٹر لگا ہے۔ صرف عثمان بزدار نہیں محمود خان اور پرویز خٹک بے شرمی کی زندہ مثال ہیں جن کو خان صاحب نے عہدے دیے انہوں نہ صرف دھوکا دیا بلکہ اپنے لیڈر کے خلاف بکواس بھی کی۔

مسرت جمشید چیمہ نے کہا کہ عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ برقرار رکھنے پر عمران خان نے بڑا پریشر جھیلا،عثمان بزدار کبھی  پی ٹی آئی کے تھے ہی نہیں، پتا نہیں وہ کدھر سے آئے اور آکر  کرسی پر بیٹھ گئے۔ وہ کم ظرف انسان ہیں۔

’پارٹی اور عمران خان کی وفادار رہوں گی‘

ان کا کہنا تھا کہ ٹکٹ ملنا نہ ملنا میرے لیے کوئی ایشو نہیں ہے اور میں پارٹی کے ساتھ ہوں اور عمران خان کی وفادار سپاہی ہوں ابھی میں گھر داری ہی کروں گی کیونکہ میرا بیٹا بہت ڈسٹرب ہے، اپنے بچوں کا خیال رکھوں گی۔

’پی ٹی آئی وکلا کے حوالے نہیں کی گئی‘

مسرت جمشید چیمہ کا کہنا تھا کہ ساری پارٹی وکلا کے حوالے نہیں کی گئی ہے، عمران خان اس کے سربراہ ہیں اور وہ ہی رہیں گے۔ وکلا نے ضرور قربانی دی ہے لیکن پارٹی ہم سب کی ہے کچھ  جگہوں پر فیصلے درست نہیں ہوئے ہیں اب آگے کیا حالات بنتے ہیں وہ دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے۔

’ سینیٹر اعجاز چوہدری نے مجھے اڈیالہ جیل خط بھیجا‘

انہوں نے کہا کہ اعجاز چوہدری نے  جیل میں مجھے ایک ڈاکٹر کے ذریعے خط بھجوایا،  پتا نہیں انہوں نے یہ کیسے کیا۔ خط میں لکھا تھا کہ میری بیٹی یہ مشکل بہت بڑی ہے آپ دونوں میاں بیوی اپنے بچوں سے دور ہیں، ایک گرفتار ہوتا اور دوسرا گھر پر ہوتا تو بچوں کو کوئی سنبھال سکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہے انہوں نے بڑی خوبصورتی سے مجھے حوصلہ دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اعجاز چوہدری صاحب کو صحت کے بہت سے مسائل ہیں جو باہر کسی کو نہیں پتا، میں روپوشی کے دنوں میں جب اعجاز چوہدری کو  ٹی وی پر دیکھتی تھی تو رو پڑتی تھی، ڈاکٹر یاسمین راشد کے ساتھ میری بنتی بھی نہیں تھی لیکن میں ان کے لیے روتے ہوئے دعا کرتی تھی کہ اللہ سب کی مشکلیں آسان کردے۔

انہوں نے کہا کہ میں روتی تھی مجھے دوائیوں کی ڈبل ڈوز لینی پڑتی تھی، میں رات کو سو نہیں سکتی تھی مجھے ایسا لگتا تھا کہ اعجاز چوہدری میرے والد صاحب ہیں جب انہوں نے مجھے تکلیف میں دیکھا تو جیسا ایک باپ اپنی بیٹی کے لیے کرتا ہے وہی انہوں نے کیا میں اب آزاد ہوں تو میں کوشش کروں گی کہ ان سے ملنے جیل جاؤں۔

’ڈاکٹر یاسمین راشد کے ساتھ میری نہیں بنتی تھی‘

مسرت جمشید چیمہ کا کہنا تھا کہ میری ڈاکٹر یاسمین راشد سے نہیں بنتی تھی وہ بھی ایک ہارڈ لائنر تھیں اور میں بھی، سیاسی طور ہماری آپس میں نہیں بنتی تھی لیکن میں ان کے لیے بہت دکھی ہوتی ہوں، مجھے میرے شوہر کہتے تھے کہ تمہاری تو اس کے ساتھ بنتی نہیں تھی اب تم ان کے لیے اتنی فکر مند رہتی ہو۔

روپوشی کے دوران مسرت کہاں کہاں رہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ وہ قریباً سات آٹھ ماہ روپوش رہیں اور اس دوران انہوں نے قریباً پورا پاکستان گھوم لیا، تھر گئی، بدین گئی، بلوچستان کے شہر حب گئی، گڈانی بیچ گئی جو بہت خوبصورت ہے جب کبھی ہماری حکومت آئے گی تو وہاں پر کام کرنے کی ضرورت ہے، 2 مہینہ ہم حب میں رہے جب میں اداس ہوتی تھی روتی تھی تو ہمارے ہوسٹ ہمیں بیچ پر لے جاتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ پھر وہ لوگ ایبٹ آباد، شیروان، مردان، پشاور، راولپنڈی، رحیم یار خان گئے۔

مسرت جمشید چیمہ نے کہا کہ وہ لوگ کراچی بھی گئے جہاں وہ گالف کلب میں رہے، وہاں سیکیورٹی بھی آرمی کی تھی ہم کسی اور آئی ڈی کارڈ پر اس کلب میں رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب بھی سروس دینے والوں کی دروازے پر گھنٹی بجتی تھی تو لگتا تھا کہ ابھی کوئی آجائے گا۔

’مجھے نہیں لگ رہا کہ نواز شریف وزیراعظم بنیں گے‘

ایک اور سوال کے جواب میں مسرت جمشید چیمہ کا کہنا تھا کہ جب پہلے 2013 میں میاں نواز شریف اقتدار میں آئے تھے تو اس الیکشن والے دن شام ہی کو رزلٹ کا بتا دیا گیا تھا لیکن اب انہوں نے پہلے سے ہی بتانا شروع کر دیا ہے کہ ہمیں سادہ اکثریت چاہیے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ ملک کے اگلے وزیراعظم ہوں گے۔

’الیکشن کمیشن نے جو نشانات دیے ہیں وہ بہت دلچسپ ہیں‘

مسرت جمشید چیمہ نے کہا کہ اس مایوسی کے ماحول میں جو نشانات ملے ہیں وہ بہت دلچسپ ہیں، کسی کو حقہ ملا ہے کسی کو بینگن ملا  تو کوئی چمٹے اور جوتے کے نشان ہر الیکشن لڑ رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp