اک عمر گذر گئی اس مملکت خدادا میں الیکشن کے نام پر ”سلیکشن“ دیکھتے ہوئے اور یہ حسرت ہی رہی کہ دیگر جمہوری ممالک کی طرح ہمارے ملک میں بھی ”عوام“ کو اپنے لیڈرز منتخب کرنے کاموقع ملے۔ لیکن وہی چوہے بلی کا کھیل جاری ہے۔ جس پر اسٹیبلشمنٹ مہربان، اس کے لیے سب کچھ اچھا کر دیا جائے اور اگر کوئی اس ”اچھے“ کو خراب کرنے کی کوشش کرے یا اس کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کرے، وہ یا تو ”غائب“ کر دیا جائے یا اُس پر بکری چوری سے لے کر ملک سے غداری تک کے مقدمے قائم کر دئیے جائیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ غداری کی یہ مہر فیصلہ ساز اپنی تھیلے میں لیے پھرتے ہیں، جس نے ان کے کسی حکم کی نا فرمانی کی، فورا غداری کی مہر اس پر ثبت کر دی گئی۔پھر چند سالوں کے بعد جب انہیں کچھ بوریت محسوس ہو تو دوبارہ سے اسی شخص کو جس پر غداری کے مقدمے قائم کروائے گئے ہوں، گنگا سے اشنان کروا کے واپس لایا جاتا ہے اور اس اشنان کے دوران غداری کی مہر بھی رگڑ رگڑ کر مٹا دی جاتی ہے۔ اس پر قائم کیے گئے مقدمے ایک کے بعد ایک پلک جھپکنے میں ختم کرا دئیے جاتے ہیں۔ ان مقدمات کے خاتمے کا فیصلہ بھی مجھے لگتا ہے بعض اوقات اتنا ہی وقت لیتا ہوگا جتنے وقت میں ملکہ صبا کا تخت ان کے لیے لایا گیا تھا۔
اس کی ایک تازہ مثال ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کا دعوی کرنے والے سربراہ کی پاکستان واپسی اور پھر ماضی کے تمام کرپشن کے مقدمات میں یکے بعد دیگرے”با عزت بری“ ہونے سے بھی ملتی ہے۔ یہ صرف اسی ملک میں ہوتا ہے کہ ایک سزا یافتہ قیدی پہلے تو جیل سے بیرون ملک چلا جائے اور پھر جب اسے ”تخت پر بٹھانے کے لیے “ واپس بلایا جائے۔ تو اس کی حفاظت کے لیے ”حفاظتی ضمانت“ کا بھی فوری انتظام ہو جاتا ہے اور پھر چند دنوں میں ہی اس کی سزا ہی کالعدم قرار دے کر مکمل انصاف کر دیا جاتا ہے۔قربان جاؤں اس ملک کی ادنی سے اعلی عدلیہ کے نظام انصاف پر۔ اس مملکت خدادا میں ایک اصول تو طے ہو چکا ہے کہ کوئی جتنا بھی کرپٹ ہو، بدکردار ہواسے چاہئیے کہ وہ ‘اُن’ کو پیارا ہو جائے پھر کسی کی کیا مجال کہ اس کی کرپشن اور کردار پر کوئی انگلی تک اٹھا سکے۔کون سی عدالت ہے جو اسے سزا دینے کی جرات کر سکے گی۔ اس کی صرف ایک مثال گذشتہ دنوں ایک ٹی وی چینل پر، کراچی کے ایک سابقہ ایس۔پی کا انٹرویو ہے جس میں موصوف نے بڑھ چڑھ کر سندھ کی ایک اکثریتی پارٹی کے اس لیڈر پر پر کرپشن میں ملوث ہونے کے الزام لگائے جس کے بدولت وہ پورے سندھ میں پوسٹنگ لیتے رہے اور ان پوسٹنگز کے دوران اربوں روپے کے اثاثے بنائے۔انہوں نے اس پارٹی کے زیر اثر چلنے والے ”سسٹم“کا بھی ذکر کیا جس کے ذریعے کراچی کی اربوں روپے کی اراضی پر قبضے کروائے گئے لیکن موصوف نے یہ نہیں بتایا کہ جب تک وہ پولیس سروس میں رہے خود اس سسٹم کا حصہ رہے اور اس سسٹم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو سبق سکھا تے رہے۔ لیکن چونکہ یہ بھی ان دیکھی طاقتوں کو شاید پیارے ہو چکے ہیں تو کوئی”دوسرا“ نہ تو ان کی کرپشن کے خلاف کوئی انکوائری کرنے کی ہمت کرے گا اور نہ ان سے کوئی سوال و جواب کر نا نصیب ہوں گے۔
دوسری طرف نگراں وزیر اعظم کے غیر ملکی دورے بھی زور و شور سے جاری ہیں۔ گو کہ شایدآپ کو علم نہ ہو کہ بین الاقوامی جمہوری نظام میں ”نگراں سیٹ اپ” کا نہ تو کوئی تصور ہے اور نہ ہی وہ ایسے کسی سیٹ اپ کے ذریعے لائے گئے شخص کی کسی بھی بات کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ اس کے باجود غیر ملکی دورے اور وہاں پر رٹی رٹائی تقاریر کر کے یہ صاحب ایسا تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہی ان مظلوموں کے زخموں پر مرہم رکھیں گے۔ میں آپ کو دوش نہیں دوں گا لیکن یہ کرسی ہی ایسی ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی اتھارٹی سے لطف اندوز ہونے اور غیر ملکی دوروں پر جانے کا دل کرتا ہے۔ ملک میں ہوں تو بار بارگھر سے نکلنے کا دل چاہتا ہے کیونکہ آگے پیچھے ہوٹر بجاتی تیز رفتار گاڑیوں اور گارڈز کی فوج ظفر موج کا اپنا ایک نشہ ہے۔ لیکن جناب وزیر اعظم صاحب،جاتے ہوئے کوشش کریں کہ کچھ نہ کچھ ایسا کرتے جائیں کہ اس کرسی سے اترنے کے بعد بھی جب آپ کہیں عوام میں جائیں تو وہ آپ کو بیٹھنے کے لیے کم از کم اپنی کرسی ضرور پیش کریں۔