سائفر کیس: عمران خان اور شاہ محمود کو سماعتوں سے قبل مشاورت کی اجازت

بدھ 24 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آفیشل سیکریٹ ایکٹ عدالت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور پارٹی رہنما شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس کی سماعتوں سے نصف گھنٹہ پہلے آپس میں مشاورت کرلینے کی اجازت دے دی۔

جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے بدھ کو سائفر کیس کی سماعت اڈیالہ جیل راولپنڈی میں کی اور بانی پی ٹی آئی و شاہ محمود قریشی کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ عمران خان کے وکیل سکندر ذوالقرنین اور سلمان صفدر اور شاہ محمود قریشی کے وکلا علی بخاری، عثمان گِل اور خالد یوسف چوہدری عدالت میں پیش ہوئے۔ استغاثہ کی جانب سے پراسیکیوٹرز راجہ رضوان عباسی اور ذوالفقار عباس نقوی عدالت میں موجود تھے۔

قبل ازیں شاہ محمود قریشی نے استدعا کی کہ جرح سے قبل بانی پی ٹی آئی سے مشاورت کی اجازت دی جائے کیوں کہ ہمیں جیل میں ملنے نہیں دیا جاتا اور سماعت کے دوران ہی عمران خان سے ملاقات ہوتی ہے۔

جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے شاہ محمود قریشی سے کہا کہ آپ کے وکلا کے پاس تمام گواہان کے بیانات کی تصدیق شدہ نقول موجود ہیں اور اس کے علاوہ آپ جب صبح عدالت آتے ہیں تو آپ کے پاس مشاورت کا وقت ہوتا ہے۔

اس موقع پر عمران خان روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ دراصل میں اور شاہ محمود قریشی ہی جانتے ہیں کہ اصل میں ہوا کیا تھا۔ اس پر جج نے کہا کہ آپ کو ہم بلاتے ہیں تو آپ کہتے ہیں وکلا اور فیملی کی غیر موجودگی میں نہیں آؤں گا۔

تاہم جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو اس بات کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ ’آپ ایسا کریں کہ سماعت سے قبل آدھا گھنٹہ مشاورت کرلیا کریں‘۔ اس پر بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نےجرح سے قبل وکلا کے ہمراہ مشاورت کی۔

بعد ازاں سائفر کیس میں استغاثہ کے 4 گواہان پر وکلا صفائی نے جرح مکمل کرلی۔ گواہان میں اسسٹنٹ سائفر محمد نعمان، وزارت خارجہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر عمران ساجد، اقرا اشرف اور کرپٹو سینٹر انچارج شمعون شامل ہیں۔ عدالت نے سائفر کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی۔ آئندہ سماعت پر وکلا صفائی مزید گواہوں پر جرح کریں گے۔

وکلا صفائی کی سائفر اسسٹنٹ محمد نعمان سے جرح

وکلا صفائی کی جرح پر سائفر اسسٹنٹ محمد نعمان نے بتایا کہ ٹیلی گرام گریڈ 2 کا تھا، میں نے ایف آئی اے کو دیے گئے بیان میں تحریر نہیں کروایا کہ سائفر میسیج کو میں نے ڈاؤن لوڈ کیا کیوں کہ وہ معاملہ خفیہ ہے جو بتایا نہیں جاسکتا۔

محمد نعمان نے کہا کہ میں نے سائفر کو پلین ٹیکسٹ میں تبدیل کرکے نمبر اور تاریخ درج کی، میری سیکیورٹی کلیئرنس 2015 اور بعد میں سائفر اسسٹنٹ تعینات ہونے پر دوبارہ ہوئی، بھارت سے واپسی اور کرپٹو سینٹر میں تعیناتی پر میری دوبارہ سیکیورٹی کلیئرنس نہیں ہوئی۔

دفتر خارجہ کے کرپٹو سینٹر کے انچارج  شمعون قیصر سے جرح

دفتر خارجہ کے کرپٹو سینٹر کے انچارج  شمعون قیصر نے وکیل صفائی کے سوال پر جواب دیا کہ ایس او پیز کے مطابق سائفر کاپی واپس نہ آنے پر انہوں نے انٹیلیجنس بیورو کو اطلاع نہیں دی۔

ایک اور سوال کے جواب میں شمعون قیصر نے بتایا کہ کیا سائفر کاپی واپس نہ آنے سے متعلق سکیورٹی آفیسر کو آگاہ کردیا گیا تھا جنھوں نے تحریری طور پر مراسلہ بجھوانے کا کہا جو بھجوا دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کو بھی سائفر کاپی واپس نہ آنے سے متعلق آگاہ کیا گیا۔

وکیل صفائی نے سوال کیا کہ کیا آپ قانون کے تحت مسنگ سائفر کاپی کی اطلاع چیف سیکیورٹی آفیسر اور آئی بی کو دینے کے پابند تھے؟ اس پر گواہ نے کہا کہ ’یہ درست ہے کہ میں چیف سیکیورٹی آفیسر اور آئی بی کو اطلاع دینے کا پابند تھا‘۔

گواہ سے ایک اور سوال کیا گیا کہ ’آرمی چیف کو بھجوائی جانے والی سائفر کاپی وزارت خارجہ کب واپس آئی۔ اس پر جج خصوصی عدالت ابو الحسنات محمد ذولقرنین نے کہا کہ یہ سوال اس کیس سے متعلق نہیں ہے اور آپ اس کیس تک ہی محدود رہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp