‏ صحافیوں کے لیے ریلیف، عام انتخابات تک ایف آئی اے نوٹسز پر کارروائی نہیں ہوگی: سپریم کورٹ

منگل 30 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

صحافیوں کو ہراساں کرنے اور ایف آئی کی جانب سے نوٹسز بھجوانے کے ازخود نوٹس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل ہیں۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اٹارنی جنرل نے بیان حلفی دیا ہے کہ انتخابات سے قبل صحافیوں کے خلاف ایف آئی اے کی جانب سے کارروائی نہیں ہوگی، آئندہ سماعت مارچ کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی گئی۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، عامر میر کے وکیل جہانگیر جدون روسٹرم پر موجود ہیں۔ جہانگیر جدون نے کل کا حکمنامہ پڑھ کر سنایا اور استدعا کی کہ عامر میر کیس میں عدالتی احکامات پر عمل ہوا یا نہیں حکومت سے پوچھا جاٸے؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس حکومت سے پوچھیں؟ جہانگیر جدون نے جواب دیا کہ وفاقی حکومت سے پوچھیں۔

مزید پڑھیں

چیف جسٹس نے سابق ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پھر آرڈر بھی آپ کے خلاف پاس ہوگا، آپ کے مٶکل کیا ایک وزیر ہیں؟ جہانگیر جدون نے بتایا کہ جی وہ وزیر ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وہ بطور وزیر بے یار و مددگار ہیں؟ جہانگیر جدون نے کہا کہ جی وہ ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ پھر وہ کون پراسرار ہے جو ملک چلا رہا ہے؟ جہانگیر جدون نے جواب دیا کہ سب کو پتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسی باتیں مت کریں یہ کورٹ ہے اکھاڑہ نہیں۔ صحافیوں کی جانب سے متفرق درخواست دائر نہ ہونے پر چیف جسٹس نے اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا جب تک تحریری طور پر ہمارے سامنے کچھ نہیں آئے گا ہم آرڈر کیسے جاری کریں؟ اب سپریم کورٹ میں 3 رکنی کمیٹی ہے وہ طے کرتی ہے کہ درخواست آنے کے بعد کیا کرے گی۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا صحافیوں نے کوئی نئی درخواست دائر کی؟ صحافی عقیل افضل نے جواب دیا کہ ہمیں ابھی تک فہرست ہی نہیں ملی کہ کن صحافیوں کیخلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا اٹارنی جنرل صاحب کل ہم نے محتاط رہتے ہوئے کوئی آرڈر پاس نہیں کیا، کوئی بندہ اپنا کام کرنے کو تیار نہیں، ہم پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کو دیکھ رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس قانون سے متعلق کیس براہ راست نشر ہوا تھا پورے ملک نے دیکھا۔ ہم توقع رکھتے تھے آج صحافی کوئی سی ایم اے فائل کرتے، ہمیں کوئی کاغذ تو دیکھائیں ہم اس کیس میں آگے کیسے بڑھیں؟

صحافی مطیع اللہ جان روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کل ارشد شریف قتل کیس کی بات کی تھی، میں نے اس مقدمے کو دیکھا تھا وہ 5 رکنی بینچ کے پاس ہے، اس میں ان کے وکیل پیروی کر رہے ہیں اس میں آپ کی ضرورت نہیں۔

مطیع اللہ جان نے کہا کہ ایک کیس میرے اغواء کا ہے، جن لوگوں پر ہم الزام لگا رہے ہیں وہی ہمیں بلا کے پوچھ رہے ہیں۔ عقیل افضل صدر سپریم کورٹ پریس ایسوسی ایشن نے کہا کہ کل آپ نے صحافیوں کو نوٹسز واپس لینے کی آبزرویشن دی تھی لیکن نوٹسز واپس نہیں ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے ایسی کوئی ابزرویشن نہیں دی تھی۔

صحافی عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ کیا صحافیوں پہ کوئی قانون لاگو ہوتاہے یا نہیں؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صحافیوں پہ بہت قانون لاگو ہوتے ہیں، آپ کے ساتھیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ معاملہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ ابصار عالم کا نام رہ گیا تھا وہ ہم شامل کر رہے ہیں۔ عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ صحافیوں کو جاری نوٹسز کو انتخابات تک ملتوی کردیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بہت سے لوگوں کو نوٹسز جاری ہوئے ہیں، انہوں نے تو اعتراض نہیں کیا کہ وہ کسی ادارے کے پاس نہیں جانا چاہتے، آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم قانون کا اطلاق نہ کریں، آپ صرف یہ بتا دیں کہ ہم کس قانون کے تحت نوٹسز واپس لینے کا حکم جاری کریں، ہم صحافیوں سے صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ کل کا آرڈر پڑھ لیں۔

صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شہزاد شوکت نے کہا کہ صحافیوں کی جانب سے تنقید مثبت چیز ہے لیکن جعلی خبریں نہیں ہونی چاہیئں۔ خاص طور پر یوٹیوبرز کی جانب سے ایسا کیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کیا میڈیا کی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو جھوٹ چھاپنے کی آزادی ہو؟ کیا سچ بولنا ایک صحافی کی ذمہ داری نہیں؟

حیدر وحید ایڈووکیٹ نے کہا کہ وفاقی حکومت کو ہدایت کی جائے کہ فریقین سے مل کر سوشل میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق بنائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا عدالت ایسا حکم جاری کر سکتی ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے کوئی قانون نہیں ہے، جو قانون ہے وہ صرف فوجداری کارروائی کے لیے ہے، یوٹیوب پر ہتک عزت قانون تو لاگو ہوتا ہے لیکن کوئی ریگولیٹری قانون نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت قانون کی تشریح کر سکتی ہے جب قانون ہی نہیں تو کیا کریں؟ عدالت صرف سٹیک ہولڈرز کو ایک ساتھ بیٹھنے کی درخواست کرسکتی ہے۔ بی بی سی دیکھیں وہاں لوگ ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں لیکن گالیاں نہیں دیتے یہاں پر ایسی گفتگو کی وجہ سے ریٹنگ ملتی ہے۔ وکیلوں اور ججوں کے لیے کوڈ آف کنڈکٹ ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پرنٹ میڈیا کے لیے بھی کوڈ آف کنڈکٹ ہے۔

پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس  نے کہا کہ اگر آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں تو تحریری طور پر بتا دیں۔ افضل بٹ نے کہا کہ ہم تنقید کو مثبت اور ٹرولنگ کو غلط سمجھتے ہیں، ایف آئی اے کو کہا جائے کہ تنقید اور ٹرولنگ میں فرق کرے، ایف آئی اے نے تنقید اور ٹرولنگ کو مدغم کر دیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ شاید ’پریس ان چینز‘ سے واقف نہیں، صحافیوں کو کوڑے لگے ہیں، آپ ایک نوٹس سے ڈر گئے ہیں، میرے محلے میں اگر قتل ہو جائے گا اور مجھے نوٹس آئے گا تو میں بھی جاؤں گا۔ کیا صحافی جھوٹ لکھ سکتا ہے؟ افضل بٹ نے کہا کہ نہیں لکھ سکتا۔

افضل بٹ نے کہا کہ ہمارے پریس کلب اور پی ایف یو جے میں غلط خبر پر کمیٹی تحقیقات کرتی ہے اور اس صحافی کی رکنیت معطل کر دی جاتی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ رکنیت معطل کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ یوٹیوب کھول کر بیٹھ جاتا ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ میڈیا میں کچھ بھی مثبت رپورٹ نہیں ہوتا سب منفی ہوتا ہے اور اگر آپ آج یہاں کھڑے ہیں تو اس کی کوئی وجہ ہے۔ مطیع اللہ جان نے استدعا کی کہ صحافیوں کے خلاف کارروائی کو انتخابات کے بعد تک مؤخر کیا جائے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ اس دوران احتیاط سے رپورٹنگ کریں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی صرف صحافیوں کے بیانات قلمبند کرنے ہیں جنہوں نے ٹویٹس کی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بس اتنا کام ہے؟ آپ کا مسئلہ تو حل ہوگیا۔ اظہار رائے کی آزادی کی حدود پر اکثر مباحثے ہونے چاہیئں۔ پی ایف یو جے تحریری طور پر تجاویز دے کہ ہمیں اس معاملے میں کس طرح سے آگے بڑھنا چاہیئے۔ اٹارنی جنرل نے بیان حلفی دیا ہے کہ انتخابات سے قبل صحافیوں کے خلاف ایف آئی اے کی جانب سے کارروائی نہیں ہو گی۔ دوسرے فریقین نے بھی کہا اس معاملے کو انتخابات کے بعد تک ملتوی کیا جائے۔ سماعت مارچ کے پہلے ہفتے تک ملتوی کر دی گئی۔

آج کی سماعت کا تحریری حکم نامہ

سپریم کورٹ نے آج کی سماعت کے حکم نامے میں کہا ہے کہ اٹارنی جنرل کے مطابق وہ ابصار عالم پر حملے کا ذکر کرنا بھول گئے تھے، عدالت نے ابصار عالم پر حملے کی تحقیقاتی رپورٹ بھی مانگ لی ہے۔ سپریم کورٹ نے پی ایف یو جے کو مقدمہ میں فریق بننے کی اجازت دے دی، سپریم کورٹ پریس ایسوسی ایشن میڈیا کی آزادی اور موجودہ حالات پر درخواست دائر کرنا چاہتی ہے۔

حکم نامہ کے مطابق عدالت نے پریس ایسوسی ایشن کی درخواست ملنے پر رجسٹرار آفس کو فوری نمبر لگانے کی ہدایت کی ہے۔ رجسٹرار آفس درخواست ملتے ہی ججز کمیٹی کے سامنے پیش کرے۔ اٹارنی جنرل نے انتخابات تک صحافیوں کو جاری نوٹسز پر کارروائی مؤخر کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

مزید یہ کہ اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی ہے کہ الیکشن کے بعد دوبارہ نوٹسز جاری کیے جائیں گے، ایف آئی اے نوٹسز پر کارروائی عام انتخابات تک نہیں ہوگی۔

کل کی سماعت کا احوال

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے صحافیوں کو ایف آئی اے کی جانب سے جاری نوٹسز سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل ہیں۔ سپریم کورٹ نے صحافیوں کے خلاف جاری کیے نوٹسز پر ایف آئی اے کو کارروائی سے روک دے دیا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کہ گالم گلوچ الگ بات ہے، تنقید کی بنا پر صحافیوں کو جاری نوٹسز پر ایف آئی اے کارروائی نہ کرے۔

سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، صدر پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ عقیل افضل سمیت نوٹسز جاری کیے گئے صحافی بھی عدالت میں موجود تھے۔ چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کتنے کیسز ہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 4 درخواستیں ہیں جن میں عبدالقیوم صدیقی اور اسد طور درخواست گزار ہیں۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا جرنلسٹ ڈیفنس کمیٹی کے پاکستان بار کے نمائندے موجود ہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جرنلسٹ ڈیفنس کمیٹی اب ختم ہو چکی ہے۔ وکیل حیدر وحید نے کہا کہ ہم نے وفاقی حکومت کو آزادی اظہار رائے کو ریگولیٹ کرنے کا حکم دینے کی درخواست کی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی درخواست بعد میں دیکھیں گے، سب سے پہلے تو عبدالقیوم صدیقی بتائیں کہ کیس خود چلانا ہے یا پریس ایسوسی ایشن کے صدر دلائل دیں گے؟

عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ میں کچھ حقائق سامنے رکھنا چاہتا ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ قدرت کا نظام دیکھیں کہ ہم نے ازخود نوٹس کورٹ نمبر 2 میں لیا لیکن معاملہ 5 رکنی بینچ کے پاس ازخود نوٹس کے اختیار کے لیے چلا گیا، 5 رکنی بینچ نے طے کیا کہ 184 تین کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار صرف چیف جسٹس کا ہے، صحافیوں کی ہی نہیں ججز کی بھی آزادی اظہار رائے ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عبدالقیوم صدیقی آپ نے تو کہا تھا کہ آپ اس کیس کو چلانا نہیں چاہتے۔ اس پر عبدالقیوم صدیقی نے جواب دیا کہ جب معاملہ جسٹس اعجازالاحسن کے بینچ میں گیا تو کہا تھا کہ کیس نہیں چلانا چاہتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کیس نمٹانے کے بجائے 2021 سے سرد خانے میں رکھ دیا، بتائیں کہ تب کیا درخواست تھی آپ کی اور اب کیا ہے؟

‏ چیف جسٹس نے کہا کہ بار بار کہہ رہا ہوں کب تک ماضی کی غلطیوں کو دہرائیں گے، ہم تو غلطیاں تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں، یہاں تو بس موقع دیکھا جاتاہے، میں سب غلطیاں اپنے سر پر اُٹھاؤں، بالکل نہیں اُٹھاؤں گا، مجھ سے غلطی ہوئی ہے تو مجھ پر اُنگلی اٹھائیں، اگر اُنگلی نہیں اٹھائی تو میری اصلاح نہیں ہو گی، تنقید کریں گے تو میری اصلاح ہوگی۔

‏ چیف جسٹس نے صحافی اسد طور سے استفسارکیا کہ اسد طور پر تشدد ہوا کیا ان کا پتا چلا کہ کون لوگ تھے؟ کیا آپ ان کی شکلیں پہچان سکتے ہیں؟ اسد طور نے جواب دیا کہ جی بالکل میں ان کی شکلیں پہچان سکتا ہوں، جو ایف آئی آر دی تھی اس میں کہا تھا کہ تشدد کرنے والوں نے اپنا تعارف کروایا تھا کہ ان کا تعلق آئی ایس آئی سے ہے۔

‏اسد طور نے درخواست واپس لینے کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ نے جھوٹا الزام لگایا ہے؟ اگر آپ پر دباؤ ہے تو ہم آپ کو پیچھے نہیں ہٹنے دیں گے۔ اسد طور نے کہا کہ میں ایف آئی آر کو اون کررہا ہوں لیکن اس درخواست میں مجھے غیر ضروری طور پر شامل کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسد طور صاحب! آپ کی مرضی نہیں ہے کہ ٹہلتے ہوئے آئیں اور کہیں کہ اپنی درخواست واپس لے رہا ہوں، ‏ہم یقینی بنائیں گے کہ پاکستان کا ہر صحافی جو لکھنا چاہے وہ آزادی کے ساتھ لکھ سکے، صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس سرد خانے میں چلا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کب تک ماضی کی غلطیوں کو دہراتے رہیں گے، ہمیں سچ بولنا چاہیے، اگر ہم  سے غلطی ہوئی تو انگلی اٹھائیں،  یہاں مٹی پاؤ نظام چل رہا ہے، جب تک کسی کو قابل احتساب نہیں ٹھہرائیں گے ایسا ہوتا رہے گا۔

‏مطیع اللہ جان نے ارشد شریف قتل کیس کا معاملہ چیف جسٹس کے سامنے اٹھا دیا، چیف جسٹس سے درخواست کی کہ ‏ارشد شریف قتل کیس کو بھی دیکھ لیا جائے، سنگین نوعیت کا معاملہ زیر التوا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے نشان دہی کی اچھی بات ہے لیکن وہ معاملہ اس لحاظ سے فرق ہے کہ جرم کسی اور ملک میں ہوا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کہ کہ تنقید کی بنا پر صحافیوں کو جاری نوٹس فوری واپس لیے جائیں، گالم گلوچ الگ بات ہے، ایف آئی اے تنقید کی بنا پر کارروائی نہ کرے۔ میں تنقید روکنے کے سخت خلاف ہوں، آزادی صحافت آئین میں ہے، میرا مذاق بھی اڑائیں مجھے کوئی فکر نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ‏اگر آپ یہ سمجھ رہے کہ تنقید روک کر میرا یا سپریم کورٹ کا فائدہ کر رہے ہیں تو آپ میرا نقصان کر رہے ہیں۔ جن صحافیوں کے خلاف تنقید پر نوٹس جاری ہوئے ہیں انہیں فوری واپس لیا جائے، اٹارنی جنرل صاحب اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ تنقید روک کر سپریم کورٹ یا میرا بھلا کر رہے ہیں تو یہ غلط ہے، ایسا کرکے آپ ہمارا نقصان کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صحافی اگر عدالتی فیصلوں پر تنقید کرتے ہیں تو کریں لیکن کسی کو تشدد پر اکسانے یا دیگر انتشار پھیلانے کا معاملہ الگ ہے، کسی بھی صحافی یا عام عوام کو بھی تنقید کرنے سے نہیں روک سکتے۔

‏ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ سوشل میڈیا نے اداروں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ‏تھمب نیل پر جو کچھ ہوتا ہے وہ اندر نہیں ہوتا، یہ بہت عجیب ہے۔ چیف جسٹس بولے خواتین پولیو ڈراپس پلانےجاتی ہیں انہیں مار دیا جاتا ہے، جڑانوالہ کرسچین کمیونٹی کی پوری بستی کو جلا دیاجاتا ہے۔ ملالہ یوسف زئی نے پاکستان کے لیے نوبل انعام جیتا اور وہ پاکستان نہیں آ سکتی، وہ صرف لڑکیوں کی تعلیم کی بات کر رہی تھی۔ کیونکہ ان کے پاس بندوق ہے اور ہمارے پاس صرف قلم ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تعلیم حاصل کرنیوالی خواتین پر تشدد اور ان کے سکولوں پر بم مارے جاتے ہیں۔ فتوٰی دیدیا جاتا ہے کہ خواتین الیکشن میں ووٹ کاسٹ نہیں کرسکتی، فتوٰی دینے والے کو کیوں گرفتار نہیں کیا گیا؟ کیوں مقدمہ درج نہیں کیا گیا، ان سے بدتر اور منفی سوچ کسی کی نہیں ہوسکتی، یہ نفرت پھیلاتے اور قبرستانوں تک کو نہیں چھوڑتے، یہ اب اژدھے بن چکے ہیں۔

‏ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ سوشل میڈیا نے اداروں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ‏تھمب نیل پر جو کچھ ہوتا ہے وہ اندر نہیں ہوتا، یہ بہت عجیب ہے۔ چیف جسٹس بولے خواتین پولیو ڈراپس پلانےجاتی ہیں انہیں مار دیا جاتا ہے، جڑانوالہ کرسچین کمیونٹی کی پوری بستی کو جلا دیاجاتا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تعلیم حاصل کرنیوالی خواتین پر تشدد اور ان کے سکولوں پر بم مارے جاتے ہیں۔ فتوٰی دیدیا جاتا ہے کہ خواتین الیکشن میں ووٹ کاسٹ نہیں کرسکتی، فتوٰی دینے والے کو کیوں گرفتار نہیں کیا گیا؟ کیوں مقدمہ درج نہیں کیا گیا، ان سے بدتر اور منفی سوچ کسی کی نہیں ہوسکتی، یہ نفرت پھیلاتے اور قبرستانوں تک کو نہیں چھوڑتے، یہ اب اژدھے بن چکے ہیں۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سے 2 ہفتوں میں تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل (منگل) تک ملتوی کر دی۔

سماعت کا حکم نامہ

سپریم کورٹ نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوا دیا ہے، عدالت نے اسد طور، مطیع اللہ جان، عمران شفقت اور عامر میر پر تشدد کیخلاف کارروائی پر رپورٹ طلب کرتے ہوئے استفسار کیا ہے کہ بتایا جائے مقدمات میں اب تک کیا پیش رفت ہوئی ہے؟

سپریم کورٹ نے پوچھا کہ آگاہ کیا جائے کہ ملزمان کا تعلق وفاقی حکومت کے ماتحت حساس ادارے سے ہے، تفتیشی افسر یقینی بنائے کہ صحافیوں کو ایف آئی اے کی جانب سے جاری نوٹسز سے آگاہ کیا جائے۔ بتایا گیا کہ نوٹسز عدالت کو تنقید کا نشانہ بنانے پر جاری کیے گئے ہیں۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ تنقید کرنا ہر شہری اور صحافی کا حق ہے، معاملہ صرف تنقید تک ہے تو کسی کیخلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے، اٹارنی جنرل نے حکومت کی جانب سے تنقید پر کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ عدالت نے طلب کیے گئے صحافیوں کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے روک دیا۔

عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کو صحافیوں کیساتھ ملاقات کرنے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت نے ایف آئی اے حکام سے سوال کیا کہ صحافیوں کو کیوں بلایا گیا ہے؟ وفاقی حکومت صحافیوں پر تشدد کیخلاف رپورٹ 2 ہفتے میں فراہم کرے، عدالت نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف ازخود نوٹس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp