موسمیاتی تبدیلی: سیاحت کی صنعت سے منسلک افراد مزید برفباری کے خواہاں

منگل 30 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

‎آزاد کشمیر میں تاریخی خشک سالی کا خاتمہ تو ہوا ہے لیکن اب تک پہاڑوں پر معمول سے بہت کم برف باری اور میدانی علاقوں میں ہلکی بارشیں دیکھنے میں آئی ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں کے نئے اثرات کی جانب سے اشارہ کرتی ہیں۔

‎مظفرآباد شہر کے گردنواح کی بلند ترین چوٹیوں مکڑا پہاڑ اور پیر چناسی پر بھی ہلکی  برف باری ہوئی۔ مکڑا پہاڑ 12 ہزار 700 فٹ جب کہ پیرچناسی ساڑھے 9 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔

پیر چناسی اور اس کے راستے میں علاقہ سراں سیاحوں کے لیے پر کشش مقامات میں سے ایک ہے عام طور پر موسم سرما میں ان مقامات پر بھاری برف باری ہوتی رہی ہے لیکن اس بار ان مقامات  پر بھی معمول سے بہت کم برف پڑی جس کی وجہ سے بہت کم سیاحوں نے اس طرف کا رخ کیا۔

سراں میں ایک  ٹوریسٹ آپریٹر طیب شاہ کا کہنا ہے کہ پچھلے سال کی نسبت اس سال بہت کم برف پڑی ہے جس کی وجہ سے انہیں نقصان ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے 6  فٹ برف ہوتی تھی اور سیاح بھی بہت آتے تھے لیکن اس بار سیاح نہ ہونے کے برابر آئے ہیں۔

سراں میں مقام پر قائم ایک ہوٹل میں کام کرنے والے  فخر الزمان  نے بتایا کہ رواں سال لمبے عرصے تک برف باری نہ ہونے کی وجہ سے سیاحوں نے اس علاقے کا رخ نہیں کیا۔

‎فخرالزماں نے کہا کہ ہمارے کاروبار  کا انحصار برف  پر ہے، برف باری ہوئی مگر بہت کم ہوئی ہے۔ بس للہ کا کرم ہے کہ تھوڑا بہت کاروبار چل رہا لیکن برف کا انتظار ہے  کیوں کہ مزید پڑے گی تو کاروبار بھی اچھا ہوگا۔

‎ ایک اور ہوٹل کے مالک صغیر نے کہا کہ برف باری نہ ہونے کہ وجہ سے جہاں سیاح نہیں آئے وہیں ان کے آبی ذخائر بھی متاثر ہوئے۔

‎صغیر کاکہنا تھا کہ ان کا کاروبار سیاحوں کی وجہ سے چلتا ہے اور برف باری نہ ہونے کی وجہ سے سیاح نہیں آتے۔ ان کا مزید کہنا تھاق کہ اس کے علاوہ پانی کے چشمے بھی خشک ہوچکے ہیں جس سے پانی کی قلت کا سامنا ہے۔

‎گزشتہ سال اس موسم میں سیاحوں کی ایک کثیر تعداد کشمیر میں موجود تھی لیکن اس بار اکا دکا  سیاح ہی نظر آ رہے ہیں۔

‎سیاحوں میں سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون بشریٰ  اور ان کے  شوہر بھی تھے۔  بشریٰ نے کہا ‘ہم یہاں سکون کی خاطر یہاں آتے ہیں کیوں کہ یہاں شور شرابہ اور آلودگی نہیں ہے، برف بھی ایک وجہ ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہم سکون کی تلاش میں ادھر کا رخ کرتے ہیں جو ہمیں بڑے شہروں میں میسر نہیں ہوتا‘۔

اس خشک سالی کی وجہ سے جہاں لوگوں کا روزگار متاثر ہوا ہے وہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے باعث خطے کی ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچا ہے۔  ماہرین نے پہلے ہی متنبع کیا ہے کہ موجودہ صورتحال کے باعث آبی ذخائر، گلیشیئرز، زراعت، باغبانی اور سیاحت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

‎اس موسم میں برف گلیشیئر کی صحت اور ندی کے بہاؤ کو منظم کرنے کے لیے اہم ہے۔ خشک سردیوں کا مطلب اس ہائیڈرولوجیکل سال میں گلیشیئرز کا زیادہ بڑے پیمانے پر نقصان ہوگا۔ اگر موسمی حالات بہتر نہیں ہوتے ہیں تو اس سے پن بجلی کی پیداوار، آبپاشی اور زراعت پر اثر پڑ سکتا ہے۔

‎ماحولیاتی لحاظ سے نازک اس ہمالیائی خطے میں پہلے ہی گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں اور رواں موسم سرما میں پہاڑوں پر برفباری کا نہ ہونا خطے کے لیے خطرے کی علامت ہے۔

‎ماحولیاتی ماہرین کہتے ہیں کہ اس خطے میں اگلے 51 سالوں میں گلیشیئرز مکمل طور پر غائب ہوسکتے ہیں۔

‎آزاد کشمیر کے ادارہ برائے تحفظ ماحولیات ( ای پی اے) کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر سردار محمد رفیق خان کا کہنا ہے کہ اس خطے میں تشویشناک حد تک گلیشیئرز پگھل رہے ہیں۔

‎خان  کا کہنا ہے کہ سال  2018 کی ای پی اے رپورٹ سٹیٹ آف انوائرنمنٹ ان آزاد کشمیر کے مطابق سنہ 2000 میں 15 ہزار 150 ہیکٹرز پر گلیشیئرز تھے جو سنہ 2017 میں کم ہو کر محض 11 ہزار 350 ہیکٹرز پر ہی رہ گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دوران لگ بھگ 4 ہزار ہیکٹرز پر گلیشیئرز غائب ہوگئے ہیں یعنی 17 سالوں میں 25 فیصد گلیشئرز معدوم ہوگئے۔

‎ ڈاکٹر سردار محمد رفیق خان نے کہا کہ گلیشیئرز کا پگھلنا  گلوبل وارمنگ، موسمیاتی تبدیلی اور  درجہ حرارت بڑھنے  کا نتیجہ ہے۔

‎ان کا کہنا کہ آزاد کشمیر پاکستان کے اس خطے میں پڑتا ہے جہاں درجہ حرارت زیادہ بڑھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ 50 سالوں میں آزاد کشمیر کے درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہوا ہے۔

‎ڈاکٹرخان کا کہنا ہے کہ  اس بات کا امکان ہے کہ اگلے 50 برسوں میں 3 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر گلیشیئرز اسی رفتار سے پگھلتے رہے تو اگلے 51 سالوں میں گلیشیئرز مکمل طور پر غائب ہوسکتے ہیں۔ سردار محمد رفیق خان کا کہنا ہے ’اس کے باعث یہاں پر ہر چیز متاثر ہوسکتی ہے، انسانی  صحت، انسانی  زندگیاں ، نباتات  اور جانور متاثر ہوں گے اور اس کے علاوہ  پانی کے ذخائر ختم ہوجائیں گے‘۔

واضع رہے کہ آزاد کشمیر میں صرف وادی نیلم میں گلیشیئرز پائے جاتے ہیں۔

‎موسمیاتی تبدیلی پرکام کرنے والی نیپال کے دارلحکومت کھٹمنڈو میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم انٹرنیشنل سنٹر فارانٹیگریٹڈ مونٹین ڈویلپمنٹ ( آئی سی آئی ایم ڈی)  نے  خبردار کیا ہے کہ کوہ ہمالیہ اور ہندو کش میں اس صدی کے آخر تک 80 فیصد گلیشیئرز ختم ہوسکتے ہیں۔

تنظیم کی رپورٹ کے مطابق اس کی وجہ سے آنے والے سالوں میں برفانی تودے اور طغیانی کے خطرات بڑھ گئے ہیں جس کے باعث ان پہاڑوں پر جمی برف سے نکلنے والے 12 دریاؤں پر انحصار کرنے والے 2 ارب لوگ متاثر ہوسکتے ہیں جن  میں کشمیر اور گلگت بلتستان میں بسنے والے  لوگ بھی شامل ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp