عمران خان کے خلاف عدالتی فیصلوں کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

بدھ 31 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

عام انتخابات میں اب بمشکل ایک ہفتہ قبل سابق وزیر اعظم عمران خان کو سائفر اور توشہ خانہ سمیت دو بڑے مقدمات میں سزا سنائی جاچکی ہے، سائفر کیس میں عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود  قریشی کو عدالت نے 10 ، 10 برس قید بامشقت کی سزا سنائی ہے جبکہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کو 14، 14 سال قید بامشقت کی سزا اور دونوں کو مجموعی طور پر 1 ارب 57 کرورڑ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔

عام انتخابات سے قبل یقیناً یہ دو بڑے عدالتی فیصلے بظاہر سابق حکمراں جماعت  تحریک انصاف کو بہت متاثر ضرور کریں۔ لیکن ان فیصلوں کا انتخابات اور  پارٹی کے مستقبل پر کیا اثر ہوگا؟

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید کا کہنا تھا کہ ان فیصلوں سے پی ٹی آئی کے حامی مایوس ہوں گے، کیونکہ انہیں باور کرایا گیا تھا کہ اس جماعت سے گرفتاریاں نہیں ہوسکتی اور نہ ہی کوئی ایسی جرات کر سکتا ہے۔

نصرت جاوید کے مطابق ملکی تاریخ میں ایس پہلی مرتبہ نہیں ہورہا ہے، 2018 کے انتخابات 25 جولائی کو ہوئے تھے اور مریم نواز اور سابق وزیراعظم نواز شریف کو 6 جولائی کو سزا سنائی گئی تھی، جس وقت وہ لندن میں تھے۔

’۔۔۔13 جولائی کو جب وہ لاہور ایئرپورٹ پہنچے تو انہیں وہیں سے گرفتار کر لیا گیا تھا، تو وہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے، انتخابات سے چند دن قبل سزا سنا دی گئی ہے، کوئی نئی بات نہیں رہی یہ۔‘

نصرت جاوید سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اگر اپنی بقاء میں کامیاب ہو جائیں تو انہیں میدان میں واپس اترنے کا موقع ضرور مل جاتا ہے اور پی ٹی آئی کا بھی یہی مستقبل ہوگا۔ ’اگر تو پی ٹی آئی ان مشکلات سے لڑ جاتی ہے تو ضرور میدان میں آئیں گے ورنہ پی ٹی آئی کا بھی وہی حال ہوگا جو ایم کیو ایم کا ہو رہا ہے۔‘

سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے وی نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ یہ عدالتی فیصلے پارٹی پر 2 طرح سے اثر انداز ہو سکتے ہیں، ایک یہ ہے کہ پارٹی کا ووٹر مزید راسخ ہو جائے گا اور پی ٹی آئی کے ووٹرز پارٹی کے لیے مزید ہمدرد ہو  جائیں گے۔

’جبکہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ لوگ جو تیل کی دھار دیکھ کر ووٹ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں وہ پھر یقیناً پی ٹی آئی کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے، فی الحال پارٹی کو نقصان ہوگا مگر بعد میں فیصلے بدل بھی سکتے ہیں، ہائی کورٹ ریلیف بھی دے سکتا ہے۔‘

اس حوالے سے صحافی ماجد نظامی کا کہنا تھا کہ ان عدالتی فیصلوں کے بعد پی ٹی آئی کو 2 ممکنہ صورتحال درپیش ہوسکتی ہیں، ایک تو یہ کہ پی ٹی آئی کا ووٹر مایوس یا پھر نا امید ہو جائے گا اور دوسری صورت میں ووٹر ہمدردی کا ووٹ دے گا۔

’لیکن دونوں صورتحال میں پی ٹی آئی پر منفی اثرات زیادہ ہوں گے کیونکہ عوام خاص طور پر پنجاب میں یہ تاثر عام ہے کہ جب بھی کوئی سیاسی جماعت انتخابات میں شکست کے دہانے پر ہوتی ہے تو ووٹر گھر میں ہی بیٹھ جاتا ہے، وہ انتخابات والے دن باہر نہیں نکلتا۔‘

ماجد نظامی کے مطابق ماضی میں اس کی مثالیں موجود ہیں جیسا کہ 2018 میں ن لیگ، 2013 میں پیپلز پارٹی اور 2008 میں ق لیگ کے ووٹروں کے ساتھ ہوا  تھا۔ ’اگر پی ٹی آئی کے ووٹرز انتخابات پر غیر معمولی اثرانداز ہوئے تو یہ ملکی سیاسی تاریخ میں ایک معجزہ تصور کیا جائے گا۔‘

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس صورتحال میں پی ٹی آئی کو صحیح وقت کا انتظار کرنا ہوگا کیونکہ پی ٹی آئی کی جانب سے تحریک چلانے کا نتیجہ سب کے سامنے ہے، ماجد نظامی کا بھی اس موقف کی کی تائید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کسی بھی پارٹی کے لیے 6 مہینے یا سال بھر انتظار اور صبر کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp