ووٹ کو دفن کرو

جمعرات 1 فروری 2024
author image

شہریار محسود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جب نواز شریف نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا تھا تو پاکستان کا جمہوریت پسند طبقہ ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہواتھا۔ وہ طبقہ جو ملک میں حقیقی جمہوری نظام چاہتے تھے اور چاہتے ہیں۔ ایک ایسا نظام جس میں اختیار طے شدہ آئینی حدود کے دائرے میں عوامی رائے سے منتخب شدہ افراد کے ہاتھوں میں منتقل ہو۔ یہ سچ ہے کہ میاں صاحب کو ذاتی طور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی شریک حیات کی بیماری اور جدائی کا دکھ اور پھر ففتھ جنریشن وار فئیر کی پیداواری مخلوق کی جانب سے ان تکالیف کے حوالے سے غیر مہذب باتوں کا سامنا رہا۔ مخالفین میاں صاحب کو بھاگنے کے طعنے بھی دیتے رہے لیکن حقیقی سول سوسائٹی اور جمہوریت پسند طبقہ ان کی طرف سے ووٹ کو عزت دلانے کے عزم کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا رہا۔ عمران خان کے تحریکِ انصاف کے ساتھ مظبوط سوشل میڈیا پلیٹ فارم تھا جبکہ ن لیگ کے مظبوط بیانیے نے غیر جانبدار پاکستانی کو اپنی طرف کھینچا حالانکہ ان کے پاس سوشل میڈیا ٹیم برائے نام ہی موجود تھی۔ ڈاکٹرائن کے خالق کو نظر آیا کہ پاکستان معاشی طور پر ایک ایسی دلدل میں پھنس چکا ہے جس سے پرانے پاکستان کے خالقین ہی نکال سکتے ہیں۔ پھر ہم سب نے دیکھا کہ صرف ایک اشارے پر سیاسی قیادت نے ڈاکٹرائن سرکار کو اپنا کندھا فراہم کردیا جو سالوں تک ان کو کرپٹ، بے ایمان، اور چور ثابت کرنے پر سرمایہ لگاتے رہے۔۔۔ جنہوں نے معاشرے کو بدتہذیبی والا کلچر دیا، جس کا الزام اب عمران خان پر لگایا جتا ہے حالانکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ عمران خان صرف ایک کردار تھا۔

سیاست کے جھوٹ سے نابلد ہم جیسے لوگوں کو اس بات پر یقین دلایا گیا تھا کہ پی ڈی ایم میں موجود قیادت ڈیڑھ دو سال گزار کر واپس چلی جائے گی البتہ میاں صاحب نے اپنا نام تاریخ میں رقم کرنے کی قسم کھائی ہے۔ یہ بیانیہ ایک لحاظ سے دل کو لگ بھی رہا تھا کیونکہ میاں صاحب نے عمر کے اس حصے میں کافی کچھ کھو دیا تھا۔

واپسی کے اعلان کے بعد سابقہ مخالفین نے میاں صاحب کے لیے گراؤنڈ ہموارکرنا شروع کر دیا۔  کم از کم کیسیز کی حد تک تو جواز دیا جا سکتا تھا کہ ان کو سزا بھی غلط ہوئی تھی اور کیسیز بھی غلط بنائے گئے تھے۔ البتہ کہانی اتنی ہرگز نہیں تھی بلکہ ووٹ کو عزت دو کے نعرے کو “ووٹ کو دفن کرو” میں بدلنا بھی اس کہانی کا حصہ تھا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ عمران خان کا سیاسی ظہور مصنوعی طور پر 2012/13 سے شروع ہوا جس کے بعد انہوں ذاتی فائدے کے لیے سیاست، پنپتے ہوئے سیاسی کلچر اور آزاد میڈیا کے ساتھ جو کچھ کیا وہ تاریخ میں ان کے سیاہ کارناموں کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ لیکن سیاسی اصولوں کا تقاضا ہرگز یہ نہیں تھا جو گزشتہ 2 سالوں سے پاکستان میں ہورہا ہے اور جن کی پشت پر میاں صاحب نظر آرہے ہیں۔ یہ سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی بھی یا دیگر جماعتیں بھی تو گراؤنڈ پر وہی کچھ کررہی ہیں جو ن لیگ کررہی ہے۔ یہ سچ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ن لیگ بالخصوص میاں نواز شریف سے جمہوریت پسند طبقات کی توقعات تھیں کہ اب وہ صرف اصولی سیاست کریں گے اور ملک میں ایک مظبوط سیاسی کلچر کی بنیاد بنیں گے۔

عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو عدالت کی طرف سے 10، 10 سال قید کی سزا بالکل ویسی سزا ہے جو میاں نواز شریف کو ملی تھی۔ حقیقی راہنما تاریخ سے سیکھتے ہیں اور وہ غلطیاں بار بار نہیں دہراتے جن کی وجہ سے ملک کو اور خود ان کو اتنے مصائب کا سامنا رہا ہو۔ اس بات کی ضمانت کون دے سکتا ہے کہ ڈیڑھ دو سال بعد پھر سے کوئی طاقتور اٹھ کر بنے بنائے نظام کو نہیں چھیڑے گا ؟ ایسا ہی ہونا ہے اگر گراؤنڈ اور پچ سلامت رہی کیونکہ پاکستان میں یہی تو ہوتا آیا ہے۔ کل کو عمران خان اور اس کے ہمنوا وہاں ہوں گے جہاں اس وقت دوسری جماعتیں ہیں اور دوسری جماعتیں ملک دشمن اور غدار سمجھی جائیں گی تو پھر ان کے پاس کیا جواز ہوگا کہ ان کو کیوں نکالا؟

اس وقت پاکستان کی بنیادی بیماری کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا۔ بیشک آپ سوشل میڈیا کو کافر قرار دے سکتے ہیں، آواز اٹھانے والوں کی آوازیں خاموش کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کر سکتے ہیں لیکن معاشرہ جس قدر زہر آلود ہو چکا ہے وہ اس طرح کے اقدامات کے ذریعے قابلِ واپسی نہیں ہے۔ الیکشن میں ہفتہ باقی ہے لیکن اس وقت ملک کی سیاسی اور سیکورٹی کے حالات انتہائی دگرگوں ہیں۔ پاکستان کو اس وقت سیاسی استحکام کی جتنی ضرورت تھی یا ہے وہ تاریخ میں کبھی نہیں تھی۔ بجائے اس کے کہ استحکام کے لیے اقدامات اٹھائے جاتے اور خود میں برداشت کا مادہ پیدا کیا جاتا، یہاں وہ ہو رہا ہے جو سمجھ بوجھ رکھنے والوں کے لیے حیران کن ہے۔ عمران خان مکافات عمل کا شکار ہوا ہے لیکن دیگر سیاسی قائدین بھی مکافات عمل کا شکار بنیں گے اور یہ وقت زیادہ دور نہیں ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ریاستی رٹ برائے نام رہ گئی ہے لیکن سیاسی قیادت اپنے ذاتی مفادات کے تعاقب میں اندھے ہو گئے ہیں اور طاقتور حلقے ہر مسئلے کا حل زور زبردستی میں ڈھونڈتے ہیں جو مزید خرابی کی طرف لے جا رہی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو ایک بار دل سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ عوام ہر اس سیاسی بیانیے کے ساتھ کیوں ہوتی ہے جو ان کے بیانیے سے مطابقت نہ رکھتی ہو؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

بنگلہ دیش میں 5.7 شدت کا زلزلہ، ڈھاکہ میں ہلچل

انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی، الیکشن کمیشن کی جانب سے وزراء کو نوٹس جاری

افغانستان میں دہشتگرد تنظیموں کے بڑھتے اثر و رسوخ پر روس کی وارننگ

یورپی یونین فورم کے موقع پر اسحاق ڈار کی سفارتی سرگرمیاں تیز، ڈچ وزیر خارجہ سے اہم ملاقات

سیکیورٹی خدشات: جعفر اور بولان ایکسپریس جیکب آباد میں روک دی گئیں

ویڈیو

شیخ حسینہ واجد کی سزا پر بنگلہ دیشی عوام کیا کہتے ہیں؟

راولپنڈی میں گرین انیشی ایٹیو کے تحت الیکٹرو بس سروس کا باضابطہ آغاز

پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے مستقبل کو کتنا خطرہ ہے؟

کالم / تجزیہ

آزادی رائے کو بھونکنے دو

فتنہ الخوارج، تاریخی پس منظر اور آج کی مماثلت

افغان، بھارت تجارت: طالبان ماضی سے کیوں نہیں سیکھ پا رہے؟