برین ڈرین کی وجوہات کیا ہیں؟

جمعہ 2 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والی آسیہ بھی ان لاکھوں پاکستانیوں میں شامل ہے جنہوں نے غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے رواں سال ملک کو خیرباد کہہ دیا۔

آسیہ نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے 5 جنوری کو پاکستان سے برطانیہ کا سفر طے کیا کیونکہ پاکستان میں ان کو اپنا مستقبل روشن دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ آسیہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں، اسی وجہ سے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ وقت پر کسی دوسرے ملک جا کراپنا کریئربنائیں گی۔

آسیہ نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے ملک اس لیے چھوڑا کیونکہ یہاں نہ تو روزگار کے مواقع ہیں اور نہ ہی بہتر مستقبل کی کوئی امید ہے۔

امیگریشن بیورو کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پچھلے برس کے ابتدائی 6 ماہ کے دوران ساڑھے 4 لاکھ پاکستانی بیرون ممالک منتقل ہوئے ہیں۔

بیورو آف ایمی گریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2023 کے دوران 8 لاکھ 62 ہزار 625 لوگ بیرون ممالک روزگار کے لیے رجسٹرڈ  ہوئے، جبکہ سال 2022 میں 8 لاکھ 32 ہزار 339 لوگ روزگار کے لیے بیرون ممالک گئے، 2015 میں روزگار کے لیے ملک چھوڑنے والوں کی تعداد 9 لاکھ 46 ہزار 571 تھی۔

’ملک چھوڑنا کافی مشکل تھا‘

آسیہ نے بتایا کہ ملک چھوڑنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں ہوتا لیکن مجبوری میں لوگ ایسا کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دوسرے ملک جا کرسیٹل ہونا کافی مشکل کام ہوتا ہے۔ شروع میں انسان کو بہت زیادہ مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ رہائش کا بندوبست کرنا، وہاں کے اخراجات ادا کرنا اور اچانک سے ایک نئے اور مختلف کلچر میں خود کو ایڈجسٹ کرنا، اور پھر روزگار ڈھونڈنا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔

آسیہ نے مزید بتایا کہ یہ کتنی پریشان کن بات ہے کہ ہم اپنے ہی ملک سے قابل اذہان کی منتقلی کرتے ہیں جو دوسرے ملک کے لیے ایک اثاثہ بن جاتا ہے۔

ساتویں مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 24 کروڑ سے زائد ہے اور نوجوان آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ یو این ڈی پی کے مطابق پاکستان کی آبادی کا 64 فیصد حصہ 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے جو کہ ایک بہت بڑی تعداد ہے۔

آسیہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے حالات دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ معاشی مسائل کی جانب کوئی بھی توجہ نہیں دے رہا ہے جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ آسیہ نے بتایا کہ بہت سارے نوجوان اسٹوڈنٹس ویزا پرآرہے ہیں اور یہاں محنت مزدوری کرکے اپنے گھروں کو سپورٹ کررہے ہیں۔

حکومتی عدم توجہ بھی ایک مسئلہ ہے

ایک سوال کے جواب میں آسیہ نے بتایا کہ اگر حکومت نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع مہیا کرتی، ان کے لیے نوکریوں کا بندوبست کرتی تو کوئی بھی ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک کا رخ نہ کرتا لیکن حکومت کی عدم توجہ ہی لوگوں کو ایسا کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔

روزگار، تعلیم اور بہتر مستقبل کے سلسلے میں بیرون ممالک جانے والوں میں اسٹوڈنٹس، ڈاکٹرز، انجنیئرز، انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکسپرٹس، اسکل ورکرز اور عام مزدور شامل ہے۔

اس کے علاوہ لوگوں کی بڑی تعداد جنوبی کوریا، جاپان، جرمنی، چین، اٹلی اور فرانس سمیت دیگر یورپی ممالک کی جانب منتقل ہوئی ہے۔

اس حوالے سے سینیٹر سلیم مانڈوی والا سے گفتگو کی تو انہوں نے بتایا کہ بے شک ملک کی معیشت کمزور ہے، مہنگائی ہے اور بے روزگاری ہے لیکن نوجوانوں کو صبر سے کام لینا چاہیے۔ نئی حکومت آنے کے ساتھ نوجوانوں کو نوکریاں دی جائیں گی۔

34 ہزار سے زیادہ پاکستانی عمان، 8 ہزار کے قریب بحرین اور 16 ہزار سے زیادہ افراد روزگار کے سلسلسے میں ملائیشیا جا چکے ہیں۔ سال 2023 میں ساڑھے 8 لاکھ پاکستانی باہر ممالک کا سفر کر چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن نوکریاں نہیں دی جاتی ہیں، جو نوجوان تعلیم مکمل کرلیتے ہیں ان کو 2 یا 3 مہینے کی انٹرنشپ کے نام پربھی دھوکا دیا جاتا ہے۔

’نوجوان مایوس ہو چکے ہیں‘

آسیہ نے بتایا کہ نوجوان اس حد تک مایوس ہو چکے ہیں اور اکثر نوجوان غیر قانونی طور پر ملک سے باہر جانے کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں اور یہ تک نہیں دیکھتے کہ یہ غیرقانونی سفر کتنا تکلیف دہ ہے۔ یہاں تک کہ اس میں ان کی جانیں بھی جا سکتی ہیں۔ آئے روز کئی نوجوان یورپ و دیگر ممالک کا غیرقانونی سفرکرتے ہوئے جان کی بازی ہارجاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت ملک میں غربت، مہنگائی اور بے روزگاری انتہائی زیادہ ہے جس کی وجہ سے نوجوان پاکستان سے باہر ممالک جانا چاہتے ہیں۔

 ڈالر کی اونچی اڑان جاری

شہید بے نظیر بھٹو ویمن یونیورسٹی پشاور کے اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کی لیکچرر سائرہ خان نے بتایا کہ ڈالر کی اڑان جاری ہے اور روز بروز مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے نوجوان یہاں سے باہر جانا چاہتے ہیں۔ سائرہ خان نے کہا کہ یہ ایک طرف اچھی بات ہے کہ لوگ باہر جائیں گے اور یہاں زرمبادلہ بھیجیں گے جس سے ان کی فیمیلیز اپنے اخراجات پورے کریں گی۔ لیکن یہاں سے سب لوگ مایوس ہو کر جا رہے ہیں اور ان کو لگتا ہے کہ بس سب کچھ ختم ہوگیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو مایوس نوجوانوں کے لیے ترقیاتی پراجیکٹس، انٹرپرینورشپ پالیسیز اور اسکل فل پراجیکٹس لانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ نوجوان اپنے ہی ملک میں رہ کر کاروبار شروع کرسکیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp