دنیا بدلے گی، ہم نہیں

ہفتہ 3 فروری 2024
author image

احمد ولید

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کہتے ہیں کہ دنیا بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ مگر پاکستان کا وہ حال ہے کہ یہاں جتنا کچھ بدلتا ہے اتنا ہی وہیں کھڑا رہتا ہے۔ سیاست میں آج بھی 90 کی دہائی کے مکمل اثرات موجود ہیں۔ وہی کھینچا تانی، وہی الزامات کی سیاست، کرپشن کا منترا، غدار غدار کے نعرے، وہی عدالتیں، ملتے جلتے کیس، متوقع فیصلے، کوئی اندر تو کوئی باہر، وغیرہ۔

میثاق جمہوریت آیا تو سمجھے کے اب سیاست کے طور طریقے بدلیں گے۔ پھر اس سیاست کے اس کھیل میں عمران خان اپنی باری لینے آئے اور پاکستان کی سیاست کو واپس 90 کی دہائی میں لے گئے۔ چور چور، کرپٹ کے نعرے اوراحتساب کے دعوے۔ سیاسی مخالفین کے خلاف جھوٹے سچے مقدمات بنا کر جیلوں میں ڈال کر سوچا کہ اب 20 سال اکیلے حکومت کریں گے۔ حالات پھر بدل گئے۔ تحریک عدم اعتماد آئی اور عمران خان کی حکومت کا دھڑن تختہ ہو گیا۔ پھر وہ اسے فوج، سیاسی مخالفین اور بیرونی قوتوں کی سازش قرار دیتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور خوب داد اور تاریخی مقبولیت حاصل کی۔ اپنے ہی مہربان جرنیلوں کے خلاف زہریلی مہم میں اس قدر آگے نکل گئے کہ واپسی کا راستہ بند ہوگیا۔

سیاسی مخالفین نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی کھل کر حمایت کی، اپنے مقدمات ختم کرائے اور انتقامی سیاست کا ایک نیا دور شروع ہوگیا۔ طاقت ور حلقوں نے عمران خان اور اس کی پوری ٹیم کے خلاف مقدمات کی بھرمار کردی۔ عمران خان کو سائفر کیس میں 10 سال اور اگلے ہی روز توشہ خانہ کیس میں 14 سال قید ہو گئی۔

لوگوں کے وہی بوسیدہ اور دقیانوسی جملے۔ عمران خان کو ان کے مشیروں نے مروا دیا۔ کوئی کہنے لگا کہ بشریٰ بی بی اسے لے بیٹھی یا پھر ان کے خلاف گھناؤنی عالمی سازش کے ذریعے انہیں اقتدار سے ہٹایا گیا۔ اگر عمران خان جمہوریت پسند لیڈر ہوتے تو مخالف جماعتوں سے مذاکرات کرتے۔ ملک کی معیشت، سیکیورٹی، ہمسایوں سے اچھے تعلقات، جمہوریت کی مضبوطی کی بات کرکے سیاسی اسپیس بڑھاتے اور شاید آج یہ نوبت نہ آتی۔

الیکشن 2024 ملک کی تااریخ کے ایسے انتخابات ہیں جن سے عوام کو کوئی توقعات نہیں۔ یکطرفہ الیکشن جمہوریت کا منہ چڑھا رہے ہیں۔ ملک کے تمام خود غرض سیاستدان آلہ کار بن کرجمہوریت مذاق اڑانے کے ساتھ ساتھ اپنے لیے نئے گڑھے کھود رہے ہیں جن میں نکلنے کے لیے انہیں ایک عرصہ درکار ہوگا۔ یا پھر سب نے طے کرلیا ہے کہ لولی لنگڑی جمہوریت ہی سہی، کوئی اختیار ملے نہ ملے، عہدے تو مل جائیں گے۔ اس کے بعد وہ کسی کو مورودالزام ٹھہرانے کے قابل نہیں رہیں گے۔

ان انتخابات میں بھی وہی پرانے چہرے نظر آ رہے ہیں جن سے لوگ اکتا چکے ہیں۔ شریف اور زرداری خاندان سمیت زیادہ تر سب وہی جانے پہچانے نمائندے الیکشن کی دوڑ میں شامل ہیں۔ اس مرتبہ تو بعض مسلم لیگ نواز کے ووٹرز بھی بدزن ہو کر ووٹ ڈالنے سے کترا رہے ہیں۔ یا تو انہیں یقین ہے کہ ان کی جماعت کے مقابل کوئی نہیں اور فیصلہ سازوں نے طے کرلیا ہے کہ نواز شریف کو ہی لانا ہے تو ووٹ ڈالنے کا کیا فائدہ۔ یا پھر وہ بھی سمجھتے ہیں کہ حکومت پیپلز پارٹی اور نواز لیگ مل کر ہی بنائیں گے مگر فیصلہ سازی کہیں اور سے ہوگی۔ اسی لیے بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن میں پیسے ضائع کرنے کا کیا فائدہ۔ اگلے 2 سال اسی سسٹم کے تحت ہی گزار لیتے۔

تحریک انصاف کی قیادت جیلوں میں مگر کسی امیدوار کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی جا رہی۔ پی ٹی آئی کی نوجوان قیادت جو روایتی پارٹیوں کی سیاست سے بیزار ہوچکے تھے انہیں ان کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ عمران خان کو جن مقدمات کا سامنا ہے ان کا ان امیدواروں سے کوئی تعلق نہیں۔ بڑی تعداد میں ایسے امیدوار بھی ہیں جنہوں نہ تو 9 مئی کے واقعات میں کوئی کردار ادا نہیں کیا اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی مقدمات ہیں لیکن ان کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کیا جا رہا ہے۔ طاقتور حلقوں کے اس عمل سے ملک کے نوجوانوں کے ذہنوں میں نفرت کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔ ایک مقدمے میں ضمانت ہو تو کوئی اور من گھڑت کیس ڈال کر دوبارہ گرفتار کر لیا جاتا ہے۔

یعنی اس ملک میں بھینس چوری جیسے مقدمات درج کرانا آج بھی جاری ہے اور اس مرتبہ ریاست وہی ہتھکنڈے اسعتمال کر رہی ہے۔ نئی نسل کو پیغام دیا جا رہا ہے کہ دنیا جتنی بھی بدل جائے یم اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp