عام انتخابات 2024: مذہبی جماعتوں کی پوزیشن، پارلیمنٹ میں کتنا شیئر ہوگا؟

ہفتہ 3 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں عام انتخابات چند دن کی دوری پر ہیں،ملک میں پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ کے علاوہ متعدد سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی میدان میں اتر چکی ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف بطور جماعت اگر چہ انتخابی عمل کا حصہ نہیں مگر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار ملک بھر میں انتخابی عمل میں شریک ہیں۔

انتخابات 2024میں مذہبی جماعتوں یا مذہبی سیاسی جماعتوں کے ووٹ بینک کی کیا صورتحال ہے، الیکشن کے بعد وجود میں آنے والی قومی اسمبلی میں مذہبی جماعتوں کو ممکنہ طور پر کتنی نمائندگی مل سکتی ہے اور کون سی مذہبی جماعت کس بڑی سیاسی جماعت کو سپورٹ کر رہی ہے اس حوالے سے وی نیوز نے ایک تفصیلی جائزہ لیا ہے۔

3 بڑی مذہبی جماعتیں پہلی بار کسی انتخابی اتحاد کے بغیر میدان میں موجود

الیکشن کمیشن آ ف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق جمعیت علمائے اسلام ،جماعت اسلامی، تحریک لبیک، سنی علما کونسل اور متحدہ مجلس وحدت المسلمین سمیت کل 23 مذہبی سیاسی جماعتیں کمیشن کے پاس رجسٹرڈ اور پاکستان کی انتخابی سیاست میں سرگرم ہیں جبکہ 2 سے 3ہزار تک ایسے امیدوار بھی انتخابات میں شریک ہیں جو مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

مذہبی جماعتوں پر نظر رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق سنہ 2018 کے الیکشن کے مقابلے میں سنہ 2024 کے انتخابات میں مذہبی جماعتوں کا عمل دخل زیادہ ہوگا ۔پہلی بار تینوں بڑی مذہبی سیاسی جماعتیں جے یو آئی، جے آئی اورٹی ایل پی بغیر کسی انتخابی اتحاد کے میدان میں ہیں اور دوسرا تحریک انصاف کی براہ راست انتخابی سیاست میں غیر موجودگی  کا زیادہ فائدہ خیبر پختونخواہ میں جماعت اسلامی جبکہ پنجاب میں تحریک لبیک پاکستان کو ہوگا۔

حالیہ انتخابات میں جے یو آئی کے علاوہ دیوبندی مکتبہ فکر کی دو سری بڑی جماعت راہ حق پارٹی کراچی میں ایم کیو ایم کو جبکہ پنجاب کے مختلف حلقوں میں ن لیگ کو سپورٹ کر رہی ہے۔اسی طرح جمعیت اہل حدیث ن لیگ کی اتحادی ہے۔ مجلس وحدت المسلمین نے تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ تحریک نفاذ جعفریہ اور شیعہ علماء کونسل مختلف حلقوں میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی حمایت کر رہی ہیں۔

سنی اتحاد کونسل نے کراچی میں ن لیگ جبکہ پنجاب میں کسی انتخابی اتحاد کا اعلان نہیں کیا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اعلی سطح پر یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ تمام مذہبی سیاسی جماعتوں کی قومی اسمبلی میں نمائندگی ہونی چاہیے تا کہ ان کے آپس کے اختلافات پر بحث و مباحثے کے لیے قومی سطح کا پلیٹ فارم مہیا ہو۔ اس لیے اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ الیکشن 2024میں پارلیمنٹ میں مذہبی جماعتوں کی نمائندگی پہلے سے زیادہ ہو گی۔

جے یو آئی ممکنہ طور پر کتنی سیٹیں جیت سکتی ہے؟

منتشر ووٹ بینک کے باوجود جے یو آئی (ف) سب سے بڑی مذہبی پارلیمانی جماعت بن سکتی ہے۔ انتخابات 2024 کے لیے جمعیت علمائے اسلام (ف)، جماعت اسلامی، تحریک لبیک جیسی بڑی جماعتیں بغیر انتخابی اتحاد کے میدان میں موجود ہیں جبکہ جمعیت اہل حدیث، مجلس وحدت المسلمین ،شیعہ علماء کونسل، سنی اتحاد کونسل، راہ حق پارٹی جیسی جماعتیں مختلف پارٹیوں کے امیدواروں کو سپورٹ کر رہی ہیں۔

کیا جے یو آئی آنے والی اسمبلی میں سب سے بڑی مذہبی پارلیمانی جماعت ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کی مذہبی جماعتوں کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی سبوخ سید نے وی نیوز کو بتایا کہ اگر چہ مذہبی جماعتوں میں جماعت اسلامی اور تحریک لبیک نے بالترتیب ملک بھر میں سب سے زیادہ امیدوارمیدان میں اتارے ہیں مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ جے یو آئی سب سے بڑی مذہبی پارلیمانی جماعت ہو سکتی ہے۔

سبوخ سید نے کہا کہ کے پی کے جنوبی اضلاع، بلوچستان کی پشتون بیلٹ اور سابقہ فاٹا میں جے یو آئی کا ہر حلقے میں اتنا ووٹ بینک موجود ہے جو اس کے امیدوار کو جتوا سکے۔ سبوخ سید کے مطابق جے یو آئی موجودہ حالات میں 10سے 15تک قومی اسمبلی کی نشستیں جیت سکتی ہے۔

تحریک لبیک پاکستان حیران کن نتائج دینے کی صلاحیت رکھتی ہے

سابق گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے سیکیورٹی گارڈ ممتاز قادری کو ن لیگ کے دور حکومت میں ملنے والی پھانسی پر شدید احتجاج سے ٹی ایل پی کو قومی سطح پر پہچان ملی اور پھر جماعت کے پہلے امیر حافظ خادم رضوی کی شخصیت نے جلد ہی سنی بریلوی ووٹ بینک کو اپنی جانب راغب کر لیا۔

سنہ 2018 کے انتخابات میں ٹی ایل پی نے اگر چہ پورے پاکستان میں صرف سندھ کی صوبائی اسمبلی میں 2 سیٹیں حاصل کیں مگر پنجاب بلخصوص وسطی پنجاب میں اس کے امیدواروں نے ن لیگ کو بہت نقصان پہنچایا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ٹی ایل پی اس بار بھی سرپرائز دے سکتی ہے۔ اس حوالے سے مذہبی سیاست میں تحریک لبیک کی اہمیت اور آئندہ انتخابات میں ممکنہ کارکردگی کے حوالے سے سینیئر صحافی فاروق اقدس نے وی نیوز کو بتایا کہ پاکستان میں سنی بریلوی ووٹ بینک کی اکثریت تحریک لبیک پاکستان کو سپورٹ کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں یہ کہوں گا کہ تحریک لبیک کے پاس اپنے امیدوار کو جتوانے سے زیادہ دوسرے امیدوار کو ہروانے کی صلاحیت ہے اور بالخصوص پنجاب میں کئی حلقے ایسے ہیں جہاں ان کی پوزیشن پیپلز پارٹی سے بھی بہتر ہے۔

فاروق اقدس کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی کے ووٹ بینک کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سنہ 2002 کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کی تمام جماعتوں نے مل کر اتنا ووٹ نہیں لیا جتنا ٹی ایل پی نے اکیلے 2018 میں حاصل کیا۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا ٹی ایل پی قومی اسمبلی میں اپنا کوئی امیدوار بھیجنے میں کامیاب ہو سکتی ہے فاروق اقدس نے کہا کہ ایسا ممکن ہے بالخصوص اٹک کے جس حلقے سے پارٹی کے سربراہ حافظ سعد رضوی الیکشن لڑ رہے ہیں وہاں پر انہیں دیگرتمام مذہبی گروپوں کی حمایت حاصل ہے اور وہ حلقے میں محنت بھی کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حافظ سعد رضوی کے والد کا تعلق اسی حلقے سے تھا اس وجہ سے ان کی پوزیشن کافی بہتر ہے۔

ٹی ایل پی کی الیکشن مشنری” کے حوالے سے تحفظات موجود ہیں اور پارٹی کے پاس انتخابی سیاست سمجھنے والے امیدوار بھی کم ہیں یہ بھی ان کے ووٹ بینک کو فتح میں بدلنے کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے۔ ٹی ایل پی کی سیاست کے حوالے سے سبوخ سید نے وی نیوز کو بتایا کہ جماعت کے موجودہ سربراہ حافظ سعد رضوی نے اپنے والد کے مقابلے میں زیادہ پریکٹیکل اور سیاسی سوچ اپنائی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حالیہ انتخابات میں ٹی ایل پی نے وکلا سمیت دیگر پروفیشنلز کو امیدوار نامزد کیا ہے اور اس نے ملک بھر کے ان 36 حلقوں پر اپنی توجہ مرکوز کی ہوئی ہے جہاں اس کا ووٹ بینک موجود ہے اور پارٹی کے تمام وسائل بھی وہیں پر لگائے جا رہے ہیں اس لیے اس بات کے امکانات ہیں کہ تحریک لبیک پہلی بار قومی اسمبلی میں بھی نمائندگی حاصل کرنے کامیاب ہو جائے گی۔

 کیا جماعت اسلامی کا اکیلے الیکشن لڑنے کا فیصلہ درست ہے؟

 سبوخ سید کے مطابق جماعت اسلامی کے اندر انتخابی اتحاد کے حوالے سے ہمیشہ 2 مضبوط رائے پائی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جماعت کے سابق امیر منور حسن بغیر کسی انتخابی اتحاد کے الیکشن لڑنے کے حامی تھے اور ن کی  ہی وجہ سے پارٹی نے سنہ 2013کے انتخابات میں کسی جماعت سے اتحاد نہیں کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی  نے سنہ 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کیا مگر اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا کیوں کہ پارٹی قومی اسمبلی میں صرف ایک ہی نشست حاصل کر سکی اس لیے اس بار جماعت پھر بغیر کسی اتحاد کے میدان میں اتری ہے اور امکانات ہیں کہ اسے دیر، گوادر اور سابقہ فاٹا سے کچھ نشستیں مل جائیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کو اپنے جھنڈے اور منشور پر انتخابات لڑنے کا زیادہ فائدہ ہوگا۔

مولانا فضل الرحمان کو قومی اسمبلی پہنچنے کے لیے سخت ترین مقابلے کا سامنا

جمعیت علمائے اسلا م سربراہ مولانا فضل الرحمان سنہ 2018کے انتخابات میں قومی اسمبلی پہنچنے میں ناکام رہے تھے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی آبائی سیٹ  این اے 24 پر اس بار بھی سربراہ جے یو آئی کو سخت مقابلے کا سامنا ہے جہاں ایک طر ف پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی الیکشن لڑ رہے ہیں تو دوسری طرف پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار علی امین گنڈا پور بھی میدان میں موجود ہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان کے مقامی صحافی عتیق الرحمان نے وی نیوز کو بتایا کہ مولانا فضل الرحمان ابھی تک اپنے حلقے میں متحرک نہیں ہوئے اور ان کی انتخابی مہم کی نگرانی ان کے بھائی کر رہے ہیں جبکہ سابق ڈپٹی اسپیکر فیصل کریم کنڈی بھرپور مہم چلا رہے ہیں۔

عتیق الرحمان نے کہا کہ بلاول بھٹو بھی اس حلقے میں جلسہ کر چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس حلقے سے ن لیگ نے کسی امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا مگر حال ہی میں پارٹی میں شامل ہونے والے روایتی سیاسی گھرانے سے تعلق رکھنے والے سینیٹر وقار خان بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں جس کا مولانا فضل الرحمان کو نقصان ہوسکتا ہے۔

پاکستان کی بڑی درگاہوں کا انتخابی سیاست میں کیا کردار ہے؟

سبوخ سید کے مطابق پاکستان کے مختلف حلقوں کی انتخابی سیاست میں درگاہوں کا کردار اہم ہے مگریہ مکمل طور پر مقامی نوعیت کا ہے۔ بڑی درگاہیں عموماً انپے طور پر فیصلہ کرتی ہیں اور ان کی حمایت یا مخالفت پارٹی سے زیادہ امیدوار سے تعلق رکھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ درگاہوں کی جانب سے اعلانیہ طورپر کسی جماعت کی حمایت یا مخالفت عموما نہیں کی جاتی مگر سنہ 2018 میں پنجاب کی چند بڑی درگاہیں اعلانیہ طور پر تحریک انصاف کی حمایت کر رہی تھیں جس کی وجہ فیصلہ سازی کی سطح پر پی ٹی آئی کی حمایت تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پنجاب میں اثرو رسوخ رکھنے والی بڑی درگاہیں گولڑہ شریف، پاکپتن شریف، بری امام، تونسہ شریف، سیال شریف، مہار شریف کہیں پر ن لیگ کو سپورٹ کر رہی ہیں جبکہ بعض حلقوں میں ان کی حمایت پیپلز پارٹی کو بھی حاصل ہے۔ اسی طرح سندھ کی تقریباً تمام ہی بڑی درگاہیں پیپلز پارٹی کی حمایت کر رہی ہیں۔

سبوخ سید کے مطابق اربن مڈل کلاس کی وسعت کے ساتھ درگاہوں کا شاید انتخابی سیاست میں کردار بھی اتنا زیادہ نہیں رہا ہےا ور لوگ سیاسی طور پر اپنی سوچ کا اب زیادہ آزادانہ استعمال کر رہے ہیں۔

مذہبی جماعتیں پارلیمنٹ میں چوتھی بڑی قوت ہوسکتی ہیں

سبوخ سید کے مطابق پاکستان کی انتخابی سیاست میں مذہبی جماعتوں نے سب سے زیادہ پارلیمانی نمائندگی سنہ 2002 کے انتخابات میں حاصل کی جس اس کی چند اہم وجوہات تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک تو افغانستان کے مسئلے کی وجہ سے اسٹبلشمنٹ چاہتی تھی کہ سرحدی صوبوں میں مذہبی جماعتوں کی حکومت وہ اور دوسرا تقریباً تمام مذہبی جماعتیں ایک پلیٹ فارم ایم ایم اے پر جمع تھیں جس کی وجہ سے مخصوص علاقوں میں موجود 25 سے 40 ہزار کا ووٹ بینک تقسیم نہیں ہوا۔

انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ سنہ 2002 کے بعد سنہ 2024 کے انتخابات میں مذہبی جماعتیں زیادہ نمائندگی حاصل کرسکتی ہیں کیوں کہ پنجاب میں تحریک انصاف کی انتخابی سیاست میں براہ راست حاضری نہ ہونے کا فائدہ ٹی ایل پی کو ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح خیبر پختونخوا میں جو ووٹ پی ٹی آئی سے ٹوٹے گا وہ یقینی طور پر جماعت اسلامی کے پاس جائے گا اس لیے ہو سکتا ہے کہ پارلیمنٹ میں ن لیگ، پیپلز پارٹی اور آزاد ممبران کے بعد مذہبی جماعتیں چوتھی بڑی قوت ہوں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp