سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ اگر وہ وزیراعظم ہوتے تو ان کے وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل ہوتے۔
وی نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مفتاح اسماعیل نے وزیراعظم کی جانب سے دی ہوئی ذمہ داری ادا کی تھی۔
اس سوال پر کہ اگر آج وہ خود وزیراعظم ہوتے تو ان کے وزیرخزانہ اسحق ڈار ہوتے یا مفتاح اسماعیل؟ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ مفتاح اسماعیل ہی ہوتے۔
ان سے پوچھا گیا کہ کیا اسحاق ڈار درست طریقے سے ملکی معیشت چلا رہے ہیں؟ تو سابق وزیراعظم نے کہا کہ اسحق ڈار کی کامیابی کا فیصلہ تاریخ کرے گی۔
’مفتاح اسماعیل صاحب تھے انہوں نے کام کیا جو کچھ وزیر اعظم نے ذمہ داری دی انہوں نے اسے ادا کیا۔ وزیر اعظم صاحب کی صوبداید پر وزیر کام کرتے ہیں۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اسحاق ڈار صاحب ہونے چاہییں وہ ان کو لے آئے ۔۔ اب ذمہ داری وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کی ہے کہ وہ ملکی معیشت کو درست کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔۔ کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں یہ تاریخ ہی بتائے گی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ جو وزیر ہوتا ہے اس کے اپنے عمل ہوتے ہیں اور جو ان کا نتیجہ نکلتا ہے اسی پر ان کو جج کیا جاتا ہے۔
اس سوال پر کہ اگر وہ وزیراعظم ہوتے تو مہنگائی اور ڈالر کو قابو کر لیتے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ معجزات میں سے ہے۔
’جہاں پر آج ہم کھڑے ہیں ۔۔ یہ ایک دن کی بات نہیں ہے ۔۔ یا ایک مہینے یا ایک سال یا دس سال کی بات نہیں ہے ۔۔ یہ ایک غلط فیصلوں کا بحیثیت ملک ایک تسلسل تھا جو آج انتہا کو پہنچا ہے ۔۔ میں یہ ضرور کہوں کہ پچھلی حکومت نے اس میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی تو حکومت فائر فائٹنگ کر رہی ہے اور استحکام دینے کی کوشش کر رہی ہے اس میں یقیناً بہت سے مشکل فیصلے ہیں جن کا اثر عوام پر بھاری پڑتا ہے۔
’کم از کم آپ کو پانچ سے سات سال کا عرصہ لگے گا معاملات کے درست ہونے میں‘۔
‘یہ الیکشن مسلم لیگ ن کے لیے زیادہ مشکل ہے’
ان سے پوچھا گیا کہ اگر ابھی انتخابات ہوں گے تو مسلم لیگ ن جیت سکتی ہے تو ان کا کہنا تھا ’ہر الیکشن مشکل ہوتا ہے یہ الیکشن زیادہ مشکل ہے ۔۔ کیوں کہ ہم نے بہت مشکل حالات میں حکومت لی ہے۔ مشکل فیصلے کیے ہیں ان کی سیاسی قیمت ادا کرنے پڑے گی ۔۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ حکومت لینے کے حق میں نہیں تھے لیکن جب میری جماعت نے فیصلہ کر دیا تو وہ فیصلہ میرا بھی بن جاتا ہے ۔۔ اب اس فیصلے سے لاتعلق نہیں ہوسکتے۔‘
‘عمران خان کی وہ خوبی جو انہیں لیڈر بناتی ہے’
حال ہی میں شاہد خاقان نے کہا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد ملک میں صرف چار سیاسی لیڈر پیدا ہوئے جن میں ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، عمران خان بھی شامل ہیں اس حوالے سے جب ان سے پوچھا گیا کہ اپنے سیاسی مخالف کی کن خوبیوں کو پسند کرتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں خوبیوں کی بات نہیں کر رہا۔ میں صرف سیاسی لیڈر کی بات کر رہا ہوں ۔۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ وہ ملک جس نے ہزاروں جرنیل پیدا کیے ہیں ۔۔ ہزاروں بیوروکریٹ پیدا کیے ہیں ۔۔ ہزاروں جج پیدا کیے ہیں وہ صرف چار پولیٹیکل لیڈر۔ اچھے برے کی تمیز میں نہیں کر رہا ۔۔ بڑے چھوٹے کی تمیز میں نہیں کر رہا ۔۔ چار پولیٹیکل لیڈر یہ ملک پیدا کر سکا ہے ۔۔ یہ ہماری ناکامی رہی ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیٹیکل لیڈر وہ ہوتا ہے جو کسی بھی حلقے میں اپنے امیدوار کو ووٹ دلوا سکے۔ ’یہ خوبی صرف ذوالفقار علی بھٹو میں تھی ۔۔ اس کے بعد میاں نواز شریف میں تھی پھر بینظیر بھٹو میں تھی ۔۔ اور وہ عمران خان میں ہے‘۔
ان سے پوچھا گیا کہ اگر موازنہ کرنا پڑے نواز شریف اور عمران خان میں تو کون بہتر لگتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ وہ نواز شریف کے ساتھ ہیں۔ ’میں نے ان میں کوئی خرابی دیکھی ہوتی تو ان کے ساتھ نہ ہوتا ۔ عمران خان صاحب کو میں نہیں جانتا ہوں ۔۔ جو ان کے ساتھ ہیں ان کو پسند کرتے ہوں گے یقیناً ۔۔ لیکن عملاً دیکھیں تو پھر آپ کو حقائق نظر آجائیں گے ۔۔‘
‘مریم نواز چھوٹی بہن ہیں ان سے تعلق قائم رہے گا’
حال ہی میں ان کی جگہ ترقی پا کر مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز سے تعلقات کے حوالے سے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’مریم نواز میری چھوٹی بہن ہے۔ میں ان کے والد صاحب کا ساتھی ہوں اور ابھی کا نہیں ہوں پینتیس سال کا ساتھی ہوں ۔۔ ان کے بدترین وقت کا بھی ساتھی ہوں ۔۔ ایسی بات نہیں ہے ۔۔ وہ ایک تعلق ہے اور وہ قائم رہے گا۔‘
تاہم اس سوال پر کہ نواز شریف اور مریم نواز کی لیڈر شپ میں کیا فرق ہے ان کا کہنا تھا کہ ’مریم نواز صاحبہ ابھی آئی ہیں انہیں ابھی اپنی لیڈر شپ کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔۔ یہ آسان کام نہیں ہے میاں صاحب کو بہت عرصہ لگا تھا لیڈر بننے میں‘۔
’ان (نواز شریف ) کو اللہ تعالیٰ نے موقع دیا۔ وہ چیف منسٹر بن گئے۔ پرائم منسٹر بن گئے لیکن وہ سیاسی رہنما نہیں تھے میری نظر میں جب انہیں 1993ء میں غلام اسحاق صاحب نے نکالا۔ انہوں نے مزاحمت دکھائی تب وہ سیاسی رہنما بنے اور اس کے بعد پھر ایک لمبا سفر ہے ان کا سیاست کا اور لیڈر شپ کا‘۔
‘موروثی سیاست پر کوئی پابندی نہیں’
سیاست میں موروثی سیاست کے حوالے سے سوال پر شاہد خاقان کا کہنا تھا کہ موروثی سیاست پر کوئی بار نہیں ہے۔ آپ اس میں روکاٹ نہیں ڈال سکتے۔ سیاستدان کا فیصلہ عوام کرتے ہیں۔’میرا بیٹا یقیناً اس کو اگر سیاست میں آتا ہے تو اسے ایک ایڈوانٹیچ ملے گا۔ مجھے خود ملا تو یقیناً موروثی سیاست کا ایک ایڈوانٹیج آپ کو ملتا ہے ۔۔ لیکن اس کے بعد آپ کو اپنی کارکردگی پر بھی موروثی سیاست کرنا پڑتی ہے۔‘
‘ججز کو حکومتی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے’
اس سوال پر کہ کیا گورننس کے معاملات میں عدالتی مداخلت روکنے کے لیے پارلیمان کے پاس کوئی حل ہے؟ شاہد خاقان کا کہنا تھا کہ ’یہ ججز کو خود سوچنا چاہیے۔ جب بھی ایک ادارہ دوسرے ادارے کی حدود میں داخل ہوگا خرابی پیدا ہوتی ہے۔‘
’آپ پاکستان کے ایک سب سے تجربہ کار لیڈر کو جو پینتیس سال سے سیاست میں ہے آپ اس کو تاحیات نااہل کر دیتے ہیں۔ کس نے آپ کو یہ اختیار دیا ہے؟ یہ وہ باتیں ہیں جو ہم سب کو سوچنی چاہییں ۔۔ فوج مداخلت کرتی ہے الیکشن کے اندر اسے کس نے اختیار دیا ہے اس کے کیا اثرات ہیں؟‘۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا دوہزار اٹھارہ کا الیکشن چوری نہیں ہوا ۔’آج جہاں پر آپ پہنچے ہیں براۂ راست اس الیکشن کا نتیجہ ہے ۔۔ تو ہم سب کو یہ باتیں دیکھنی پڑیں گی سوچنی پڑیں گی کہ کرتے کیا ہیں اور اس کے اثرات کیا ہیں۔‘
‘پاکستان واحد ملک ہے جہاں ججز خود کو تعینات کرتے ہیں’
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جج خود ہی جج بناتے ہیں، کوئی دنیا کا ملک نہیں ہے ۔۔ حالانکہ نظام یہ تھا کہ ججز کا پینل آئے گا۔ پارلیمانی کمیٹی اسکروٹنی کرے گی اور وہ اس میں سے جج سلیکٹ کرے گی۔ یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے خود کر لیا کہ پارلیمانی کمیٹی ریجکٹ بھی کر دے لیکن ہم اس کو جج بنا دیں گے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ آج وکیل خود بینچ دیکھ کر بتا دیتا ہے کہ فیصلہ کیا آئے گا۔ ابھی معاملہ شروع بھی نہیں ہوا ہوتا ۔’یہ بڑی بد نصیبی ہے جب انصاف کا نظام اس حد تک پہنچ جائے ۔۔ اس حد تک خراب ہوجائے ۔۔ تو پھر ملک بچا نہیں کرتے ۔۔ ہر چیز تباہ ہوسکتی ہے‘۔
‘ججوں کے ٹیکس کا ریکارڈ ہونا چاہیے’
اس سوال پر کہ کیا قانون سازی ہونی چاہیے کہ ججوں کے انتخاب کا طریقہ بدلا جائے ان کا کہنا تھا کہ قانون سازی سے یہ ٹھیک نہیں ہو سکتا۔
’یہ رویے سے کر سکتے ہیں ۔۔ جو آدمی اس کرسی پر آتا ہے ۔۔۔ یہ آپ کے سامنے جسٹس جاوید اقبال صاحب جو سپریم کورٹ کے جج رہے ہیں، جو حرکتیں انہوں نے کی ہیں نیب کے اندر ۔۔ تو وہاں سے آپ کو نظر آتا ہے کہ جو لوگ وہاں پر گئے ہیں وہ قابلیت والے نہیں تھے‘۔
شاہد خاقان نے بتایا کہ اسمبلی کے اندر ایک بل آیا تھا ججز کے حوالے سے جس میں انہوں نے بحیثیت پرائیویٹ ممبر ایک شق ڈالی ۔’میں نے کہا کہ جو جج بننے آئے ۔۔ وہ اپنے دس سال کی انکم ٹیکس کا ریکارڈ ساتھ لیکر آئے۔ اس کو تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر رد کیا ۔۔ مجھ سے پوچھتے ہیں کیوں آپ یہ کر رہے ہیں ۔۔ میں نے کہا جو آدمی جج بننے آتا ہے ۔۔ اگر وہ ٹیکس بھی نہیں دیتا تو اس کی دو وجوہات ہیں ۔۔ یا تو ٹیکس چوری کر رہا ہے ۔۔ جج بننے کے قابل نہیں ہے ۔۔ یا اس کی پریکٹس ہی نہیں ہے تو پھر بھی جج بننے کے قابل نہیں ہے۔
‘جیل سے بہت سبق سیکھے’
شاہد خاقان عباسی نے بتایا کہ انہوں نے تین سال جیل میں گزارے ہیں ،جنرل پرویز مشرف صاحب اور عمران خان کے ادوار میں جیل کاٹی۔
اس سوال پر کہ کیا جیل نے بھی کوئی سبق سکھایا تو ان کا کہنا تھا کہ ’جیل تو بڑی ایجوکیشن ہوتی ہے آپ وہ ایجوکیشن کہیں اور حاصل نہیں کر سکتے۔ جب آپ کے پاس اور کچھ نہیں ہوتا صرف اپنی طاقت ہوتی ہے۔ اسی سے آپ مقابلہ کرتے ہیں حالات کا۔ وہاں آپ جائزہ لیتے ہیں کا کہ کیا زندگی نے کیا ہے، کیا کرنا ہے، کیا مقاصد ہیں؟‘۔
اس سوال پر کہ وہ جیل کا ذکر کرتے ہوئے رونے کے بجائے ہنس رہے ہیں سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جیل کا پہلا دن سب سے مشکل ہوتا ہے اس دن یا جیل جیت جاتا ہے یا آپ جیت جاتے ہیں۔ اگر آپ نے وہاں کمزوری دکھائی تو جیل آپ پر حاوی ہو جاتا ہے‘۔
ان سے پوچھا گیا کہ جیل کے پہلے دن ان کے ذہن میں کیا خیال آیا تھا تو شاہد خاقان عباسی نے بتایا کہ ’جب میں پہلی مرتبہ گرفتار ہوا تو میں ملٹری کسٹڈی میں تھا مشرف صاحب کا جو مارشل لا تھا وہ ماحول کچھ اور تھا، تو جب ہم جیل میں آگئے تو جیل کا ماحول کھلا تھا اس ملٹری کسٹڈی سے۔ اسی لیے کوئی اتنا محسوس نہیں ہوا،لیکن جیل کے پرانے لوگوں نے ہمیں یہ بتایا کہ پہلا دن مشکل ہو گا یہ گزار لو تو باقی گزر جائے گا‘۔