ان دنوں انتخابات کی غیر معمولی گہما گہمی ہے۔ ہر نیوز چینل اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے علاوہ سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع سے بھی انتخابات سے جڑی ہر خبر مل رہی ہے۔ اس قدر برق رفتار دور میں ذرا یاد کریں پاکستان ٹیلی ویژن کی وہ الیکشن نشریات جس کا سبھی کو انتظار رہتا تھا۔انتخابات ہوتے تو خصوصی طور پر اس نشریات کا میلہ سجایا جاتا۔ جن کی میزبانی کا اعزاز خوش بخت شجاعت، قریش پور، مستنصر حسین تارڑ، لئیق احمد، دلدار پرویز بھٹی، طارق عزیز، مہتاب اکبر راشدی اور نوید شہزاد کو حاصل رہا۔
انتہائی سادگی سے بھرا دور ہوتا تھا۔ میزبان ہوں یا مہمان سب کی توجہ نمود ونمائش کے بجائے موضوع پر ہوتی۔ نتائج نشر کرتے ہوئے نہ چیختے چنگاڑتے میزبان ہوتے اور ناہی تجزیہ کار اور ناہی اپنے طنزیہ جملوں سے کسی کی رو ح پر زخم لگائے جاتے اور ناہی دور حاضر کی طرح سرخ سرخ ڈبے گھما کر بار بار ایک ہی نتیجے کو بیان کرکے سنسنی خیزی یا ہیجان نہیں پھیلایا جاتا بلکہ ایک نتیجے کو نشر کرنے کے بعد اگلا موضوع گفتگو یا تجزیہ ہوتے۔
ملک میں پاکستان ٹیلی ویژن کے قیام کے چند سال بعد ہی 1970 میں جب عام انتخابات کا موڑآیا تو اس سلسلے میں پی ٹی وی کی کارکردگی مثالی رہی۔ انتخابات سے قبل ہر سیاسی جماعت کے سربراہ کو موقع دیا گیا کہ وہ اپنا منشور اور انتخابی پیغام عوام تک پہنچانے کے لیے قوم سے خطاب کرے۔ اس سلسلے میں کم و بیش سبھی رہنماؤں نے سرکاری ٹی وی پر آکراپنے پیغام کو عام کیا۔
جب 7 دسمبر 1970 کو انتخابات ہوئے تو پی ٹی وی نے اس سلسلے میں پہلی بار ’الیکشن ولیج‘ کا قیام کیا۔جس کے تحت بڑے اسٹوڈیو میں ایک طرف قد آوربورڈز تھے جہاں ہر پارٹی کا نام درج تھا۔ پھر اسی طرح اس کو ملنے والی نشستوں کے خانے، اب جیسے جیسے کوئی نتیجہ آتا تو اس الیکشن بورڈ کوپُر کیاجاتا۔جس کے ذریعے ایک نگاہ پڑنے سے ہی معلوم ہوجاتا کہ دراصل پارٹی پوزیشن کیا ہے۔ دورحاضر کی طرح اُس وقت جدید ترین گرافکس ڈیزائننگ کی سہولت تو تھی نہیں۔ بس اسی طرح عملی طور پر یہ کام انجام دیا جاتا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انتہائی کم محدود ذرائع کے باوجود پی ٹی وی کی پہلی الیکشن نشریات مسلسل تین دن تک جاری رہیں۔ ان نشریات کا اختتام اُس وقت ہوا جب قومی اسمبلی کا آخری نتیجہ نشر کیا گیا۔ اس نشریات کے دوران ناظرین کے لیے سیاسی تجزیہ اورتبصرے اسی الیکشن ولیج یا سٹی سے نشر ہوتے جبکہ ہلکے پھلکے مزاحیہ پروگرامز کا سلسلہ بھی جاری رکھا گیا۔
آنے والے دنوں میں پی ٹی وی کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔ اسلام آبا د سینٹر میں مرکزی الیکشن ولیج یا سٹی ہوتاجبکہ دیگرمراکز میں ذیلی۔ اب الیکشن کمیشن سے جیسے ہی کوئی نتیجہ آتا تو یا تو براہ راست الیکشن کمیشن آفس سے اسے نشر کیاجاتا یا پھر پروگرام کے میزبان ہی اس کا اعلان کرتے۔ بھلا کیسے بھول سکتے ہیں کہ مرحوم قریش پور کی وہ مخصوص اور منفرد انداز میں نتائج کا اعلان جب وہ کہتے کہ ’حلقہ نمبر فلاں۔‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ ناظرین پوری پوری رات جاگ کر الیکشن نشریات دیکھتے جن کے ذریعے انہیں معلوم ہوتا کہ کون سا امیدوار جیتا اور کس پارٹی کی نشستیں زیادہ ہیں۔ پی ٹی وی نے الیکشن نتائج کو اس قدر سہل اور آسان بنادیا تھا کہ ناظرین خود اپنے گھر میں بیٹھ کر پی ٹی وی کی طرح کا نتائج بورڈ اپنی کاپی یا رجسٹر پر بنالیتے۔
یہ الیکشن نشریات ہر انتخابات کے موقع پر ہوتیں۔ جس کے لیے پی ٹی وی کے چاروں مراکز اپنے اپنے طور پرمختلف آئیڈیاز پیش کرتے جن کی منظوری کے بعدانہیں الیکشن نشریات کا حصہ بنایا جاتا۔ انہی نشریات میں سے ہی ’شیدا ٹلی‘ کا ظہور ہوا۔ علی اعجاز نے 1988 کے الیکشن کے دوران ’شیدا ٹلی‘ کا کردار نبھایا جو مختلف خاکوں کے ذریعے ٹی وی اسکرین پر آتا۔ یہ ایک ایسا کردار تھا جو حادثاتی یا اتفاقی سیاست دان بنتا ہے جس کی سیاست جھوٹے دعووں اورکھوکھلے نعروں کے گرد گھوم رہی ہوتی ہے اور الیکشن میں کھڑا ہوجاتا ہے تو اس کے بعد جو دلچسپ واقعات پیش آتے ہیں۔ انہی کو پیش کیا گیا۔
شیدا ٹلی، الیکشن نشریات کے دوران ناظرین کی تفریح و طبع کے لیے وقفے وقفے سے ٹی وی اسکرین پر آتے۔ اب یہ اور بات ہے کہ ’شیدا ٹلی‘ کا یہ نام ایک مخصوص سیاست دان کے ساتھ جڑ گیا۔ انہی الیکشن نشریات کے دوران “تعلیم بالغاں” کا نیا ورژن بھی پیش کیا گیا جس میں طالب علموں میں قباچہ، جیدی، چوہدری صاحب اور سمیت اس دور کے مشہور کرداروں کو یکجاں کیا گیا۔
وقت اب بدل چکا ہے۔ جدید ترین ذرائع ابلاغ کا استعمال عام ہے لیکن بے ہنگم اور بھاگتی دوڑتی زندگی میں سکون کہیں بھی نہیں۔ اور بات ہو الیکشن کی تو یہاں بھی کچھ ایسا ہی نظارہ ملتا ہے۔ حالیہ برسوں میں خود پی ٹی وی نے بھی اپنی اُس پرانی روایت کو برقرار نہیں رکھا جس کو دیکھ کر بلند فشار خون کا امکان نہیں ہوتا تھا۔ جس طرح نجی چینلز کی بھرمار ہورہی ہے اور ہر چیز کمرشل ہوتی جارہی ہے۔ خدشہ یہی ہے کہ کہیں آنے والے دنوں میں الیکشن کے موقع پر میزبان یہ کہتے ہوئے نہ نظر آئیں کہ یہ نتیجہ آپ تک پہنچانے کے لیے ہم سے تعاون کیا ہے فلاں نے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔














