ماہ جنوری کے آخری روز وادی پرل نے برف کی چادر اوڑھی تو ہم لوگ سجدہ شکر بجا لائے۔ برف کی یہ تہہ اگرچہ اتنی دبیز نہ تھی مگر پھر بھی خوشی کا باعث ضرور بنی کیونکہ اگر یہ بھی نہ ہوتی تو ہمیں موسمِ گرما میں پانی کی کمی، درجہ حرارت میں اضافہ اور فصلوں کی کم پیداوار جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا۔
لیہ میں پچھلے ایک ماہ سے سورج نہیں نکلا۔ آنکھوں کے چیک اپ کے لیے راولپنڈی آنا ہوا تو مدہم سی دھوپ سے بھی آنکھیں چندھیا گئیں۔ ہمارے علاقے میں ہر طرف اسموگ اور دھند کا راج ہے جو صبح اور شام کے اوقات میں اتنی گہری ہوتی ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے۔
لاہور کے موسم کا تو پوچھو ہی مت۔ پہلے تو اسلام آباد آ کر ٹھنڈ لگتی تھی۔ اب یہاں آ کر ہڈیوں کو گرمائش محسوس ہوئی ہے۔ بہت ٹھنڈ ہے لاہور میں۔ اسموگ تو سورج کو منظرِ عام پر آنے ہی نہیں دیتی۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے اسموگ اسٹیبلشمنٹ ہو اور سورج ایک مخصوص سیاسی جماعت جسے منظر عام پر آنے سے باز رکھا جا رہا ہو۔
جاڑا تو سارا بنا برسے ہی گزر گیا، سامنے گرمیاں کھڑی ہیں اور ان کے ساتھ مون سون کی بارشوں اور سیلاب کا خوف۔
مزید پڑھیں
ہمارا کیا ہو گا یار، ہمارے بچوں کا، ہماری فصلوں اور مویشیوں کا؟ سردیوں میں ہونے والی بارشیں اب جا کر گرمیوں میں ہوتی ہیں تو بہت تباہی پھیلاتی ہیں، خدا ہی رحم کرے!
یہ اندیشوں اور خدشات سے بھرے جملے 4 مختلف لوگوں کے ہیں۔ پہلا بیان راولاکوٹ کے رہائشی سعود کا، دوسرا لیہ کے رہائشی فیاض کا، تیسرا لاہور کے رہائشی تنویر کا اور چوتھا راجن پور کے رہائشی ہاشم کا۔
موسمیاتی تبدیلی کا قصہ اب سائنسی جریدوں سے نکل کر اقتدار کے ایوانوں سے ہوتا ہوا گھر گھر پہنچ چکا ہے۔ سال 2010 کے سیلاب کے بعد موسم کی شدت، بے وقت کی بارشوں، شہری سیلابوں اور خوراک کی قلت نے لوگوں کو باور کرایا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ایک اٹل حقیقت ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ٹھوس اقدامات ضروری ہیں۔
بدلتے موسم کی بحث میں الیکشن کا موسم آن پہنچا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان کی سیاسی جماعتیں بھی موسمیاتی تبدیلی سے آگاہ ہیں اور اس سے نمٹنے کا کوئی لائحہ عمل انہیں سجھائی دے رہا ہے؟
موسمیاتی تبدیلی اور ن لیگ
آئندہ انتخابات میں ‘فیورٹ’ سمجھے جانے والی پارٹی مسلم لیگ (ن) نے الیکشن کے منشور میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے محفوظ اور اسموگ سے پاک پاکستان کی تعمیر کا وعدہ کیا ہے۔ پارٹی نے ملک بھر میں ہوا کے معیار کی بہتری کے لیے اقدمات کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے ن لیگ نے لچکدار بحالی، آبادکاری اور تعمیر نو کے پالیسی فریم ورک (4RF) کے نفاذ کے ساتھ ساتھ موسمیاتی مدافعت کے لائحہ عمل پر بھی عمل کرنے کا عہد کیا ہے۔ اس کے علاوہ ن لیگ کے منشور میں پلاسٹک بیگز پر عمل پابندی لگانے، سنہ 2022 کے سیلاب سے بحالی کے عمل کو تیز کرنے، ماحولیاتی خطرات سے دوچار علاقوں کی حفاظت کرنے، کچرے کی مینجمنٹ میں بہتری لانے، تمام سرکاری دفاتر کو ماحول دوست بنانے اور موسمیاتی تبدیلی سے آگاہی کی قومی مہم چلانے کا عزم بھی کیا گیا ہے۔
ن لیگ کے منشور میں ماحول اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے بھی وعدے کیے گئے ہیں جن میں جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت اور اس سے ناروا سلوک کی روک تھام، حیاتیاتی تنوع، جنگلات اور شجر کاری کے پروگرام کی بحالی، ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور منصوبہ بندی کی بہتری، (سیلاب کے) پیشگی وارننگ سسٹم کی بہتری، کار بن کریڈٹ پالیسی تیاری اور نفاذ، وائلڈ لائف بورڈز کی خود مختاری، مرطوب علاقوں کے حیاتیاتی تنوع کا تحفظ، فصلوں کی آتشزدگی پر کنٹرول، اینٹوں کے روایتی بھٹوں کی ماحول دوست زگ زیگ بھٹوں میں تبدیلی، اور ماحولیاتی سیاحت کا فروغ شامل ہیں۔
ن لیگ نے سیاسی تقریبات میں جانوروں کے بطور تفریح استعمال پر پابندی لگانے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ اسی لیے ن لیگ کے قائد نواز شریف نے حلقہ این اے 130 لاہور میں منعقد ہونے والی ریلی میں لائے گئے اصلی شیر کو جلسہ گاہ سے فوراً واپس لے جانے کا حکم دیا تھا۔
سیلاب کی روک تھام اور آبی مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے دیامر بھاشا ڈیم کی تکمیل، نئے پانی کے ذخیرہ کے لیے ہائیڈرو پاور ڈیمز کی تعمیر، کلین ہائیڈرو پاور کو 3 گنا کر کے سیلاب کے اثرات کو کم کرنا، پانی کی بچت کے لیے قومی بیداری مہم کا آغاز کرنا، ملک گیر قانونی اور ریگولیٹری واٹر فریم ورک کی تیاری، پانی اور سیوریج کی سہولیات کو بہتر بنانا، پاکستانی آبی وسائل کے لیے خصوصی متحدہ کیڈر سروس کا قیام، پینے کے صاف پانی تک رسائی یقینی بنانا اور فی یونٹ پانی سے دو گنا زرعی پیداوار کا حصول بھی ن لیگ کے منشور کا حصہ ہے۔
اپنے دورِ حکومت میں ملک سے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا دعویٰ کرنے والی ن لیگ نے ملکی توانائی ذرائع کا تحفظ یقینی بنانے، ٹیکنالوجی کے ذریعے کوئلے کو ماحول دوست توانائی میں بدلنے اور کاربن میں کمی اور کوئلے کو گیس میں بدلنے کے منصوبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔
جماعت اسلامی
’حل صرف جماعت اسلامی‘ کا دعویٰ کرنے والی جماعت کے پارٹی منشور میں موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں کوئی وعدے ہیں اور نہ ہی یہ بات اس کے انتخابی منشور میں شامل ہے۔ البتہ پارٹی منشور میں چند ایسے عزائم کا تذکرہ ضرور موجود ہے جو بالواسطہ یا بلا واسطہ ماحول کو بہتر بنانے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان میں تمام شہروں سےکچرا کنڈی کو ٹھکانے لگانےکے لیے ویسٹ منیجمنٹ اتھارٹی کے قیام، سیاحتی مقامات کو آلودگی سے پاک رکھنے، نئے جنگلات لگانے کے لیے بڑے پیمانے پر شجرکاری مہمات چلانے اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے قوانین پر عمل درآمد کرانا شامل ہے۔
انتخابات کے لیے جماعت اسلامی کے ‘منشور ترازو’ میں بھی چند ‘ماحول دوست’ نکات شامل کیے گئے، مثلاً پن بجلی کے لیے نئے ڈیم، وِنڈ ٹربائن، شمسی توانائی کے پینل کی تیاری کے لیے پرکشش ترغیبات، تمام سرکاری عمارتوں میں سولر، 50 لاکھ مستحق گھروں کو کم قیمت اور اقساط پر سولر کِٹ دینا، بجلی پیدا کرنے کے ذرائع مثلا سولر و ونڈ پاور کی مقامی سطح پر تیاری کے لیے انڈسٹری کا قیام، دن کی روشنی کا اور توانائی کے ارزاں متبادل ذرائع کا مؤثر استعمال، ملک بھر میں بالعموم اور سیاحتی مقامات پر بالخصوص آلودگی کا خاتمہ، باغات اور زرعی زمینوں پر نئی رہائشی سوسائٹیوں اور کار خانوں کی تعمیر پر پابندی، ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی، کسانوں کو سولر پینل کی فراہمی، اور پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے قومی پالیسی مرتب کرنا شامل ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)
ایم کیو ایم پاکستان نے عام انتخابات 2024 کے لیے اپنے 25 نکاتی انتخابی منشور میں موسمیاتی تبدیلی کو یکسر نظر انداز تو نہیں کیا لیکن اس ضمن میں اٹھائے جانے والے ممکنہ اقدامات کو واضح بھی نہیں کیا۔
پارٹی نے ماحولیاتی آلودگی کے 5 آرز (ری فیوز، ری ڈیوس، ری یوز، ری پرپز، اور ری سائیکل) کے حوالے سے جامع ایجنڈا لانے کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی، آبی، ساحلی، اور صنعتی آلودگی کے لیے مفصل پلان تیار کرنے کا عہد کیا ہے۔
منشور کے اہم نکات میں شامل اگلے 5 سال میں پاکستان میں جنگلات کو 8 فیصد تک بڑھانے کا منصوبہ بھی ماحول دوست نکتہ ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)
پیپلز پارٹی نے پینے ‘عوامی معاشی معاہدے’ کے نام سے جاری کردہ انتخابی منشور میں موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات سے بچاؤ کی حکمتِ عملی واضح کی ہے۔
پارٹی سرکاری شعبے، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے شعبے اور بیرونی براہ راست سرمایہ کاری میں ماحولیاتی تبدیلی سے منسلک سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ سڑکوں اور شاہراہوں، مواصلات، صحت، آبپاشی، اور زراعت کے شعبے میں انفرا اسٹرکچر کی سرکاری سرمایہ کاری میں موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات سے بچاؤ پر خصوصی توجہ دینے کا اس امید کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے کہ یہ سرمایہ کاری معاشی سرگرمیوں میں بڑے پیمانے پر فروغ، روزگار پیدا کرنے کے نئے مواقع اور موسمیا تی تبدیلی کے نقصانات سے محفوظ رکھنے میں مدد گار ثابت ہوگا۔
پیپلز پارٹی نے منشور میں یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے والے کم از کم 30 لاکھ مکان تعمیر کیے جائیں گے جن کی قانونی ملکیت خاتون خانہ کے نام ہوگی۔
منشور میں تحریر ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے والے انفرا اسٹرکچر کی تعمیر کو ترجیح دی جائے گی جس کے بعد ہم بین الاقوامی طور پر موسمیاتی تبدیلی سے مقابلے پر خرچ کی جانے والی رقوم سے زیادہ حصہ حاصل کرسکیں گے۔ ان رقوم میں COP27 میں متعارف کیا جانے والا Loss and Damage Fund اور مزید کئی دوسرے رعایتی نرخوں پر دیے جانے والے قرض اور کاربن کریڈٹ بھی شامل ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)
گزشتہ انتخابات کی فاتح جماعت نے موسمیاتی تبدیلی کو اپنے منشور میں سب سے آخر میں جگہ دی ہے۔ ‘موسمیاتی تبدیلی – ایک خاموش قاتل’ کے عنوان سے ایک جامع حکمتِ عملی وضع کی گئی ہے جس میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرن کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے قابل تجدید توانائی کی پیداوار کو فروغ دینا، ماحول دوست ٹیکنالوجی کے استعمال کا فروغ، کاربن کے اخراج کو کنٹرول کرنے کے لیے کاربن ٹیکس یا کاربن پرائسنگ کا نظام متعارف کرانا اور انڈسٹری کا قابلِ تجدید توانائی پر انحصار بڑھانا جیسے اقدامات بھی شامل ہیں۔
تحریک انصاف نے ان اقدامات کے فوائد اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے مرتب کیے گئے لائحہ عمل کے نفاذ کا طریقہ کار بھی وضع کیا ہے۔