انتخابات کے بعد کیا ہو گا؟

جمعرات 8 فروری 2024
author image

شہریار محسود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خدا خدا کر کے انتخابات کا دن آن پہنچا ہے۔ حالانکہ ہم تو یہاں تک کہتے آئے ہیں کہ جب تک نتائج کا اعلان نہ ہو انتخابات کا یقین نہیں آئے گا۔ کسی بھی جمہوری سسٹم کی مضبوطی کا دار و مدار مقررہ وقت پر صاف و شفاف انتخابات پر ہوتا ہے لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں شفاف انتخابات ہمیشہ سے ایک خواب ہی رہا ہے۔ وہ لوگ جن کی تاریخ چند سال قبل شروع ہوتی ہے ان کو صرف یہ لگتا ہے کہ ایسے انتخابات پہلی بار ہو رہے ہیں یا یہ کسی مخصوص جماعت کے خلاف کوئی گیم ہو رہی ہے۔ ایسے لوگ حقائق کو چھپانا نہیں چاہتے بلکہ خود حقائق سے چھپنا چاہتے ہیں کیونکہ ایسا ہر بار ہوا ہے۔ فرق یہ تھا کہ پہلے زیرِ عتاب جماعتیں کوئی اور تھیں۔

ہاں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ عمران خان نے اس سسٹم کو پوری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔ اس سے پہلے بہت کم لوگ سسٹم کی خرابی سے آشنا تھے۔ اس وقت عین پولنگ کے دن عوام کو خوف اور وسوسوں نے گھیر رکھا ہے کہ آنے والے چند گھنٹوں میں کیا ہونے جا رہا ہے۔ ملک کے 2 بڑے صوبوں میں انتخابات کو لے کر پریشانی ہے جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بڑے پیمانے پر خون خرابے کے خدشات پائے جاتے ہیں۔ بلوچستان میں قلع سیف اللہ اور پیشین میں 2 دھماکوں میں درجنوں افراد شہید ہو چکے ہیں۔ وانا، جنوبی وزیرستان میں سابق ممبر صوبائی اسمبلی نصیر وزیر کے قافلے پر بم دھماکے میں 2 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ یہ تازہ واقعات انتخابات کے حوالے سے موجود خطرات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔

خیبرپختونخوا میں البتہ خطرات سب سے زیادہ ہیں۔ ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان میں پولنگ کے دوران خدا نخواستہ خطرناک حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پچھلے دنوں ڈیرہ اسماعیل خان تھانہ چودھوان پر ہونے والا حملہ انتہائی غیر معمولی واقعہ تھا حالانکہ ذمہ داری تا حال کسی تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔ مبصرین سمجھتے ہیں کہ ڈیرہ اسماعیل خان جنوبی وزیرستان کے ساتھ ملحقہ علاقہ ہے لہذا یہاں بدامنی بھی اسی وجہ سے ہے لیکن یہ معلومات بھی غلط ہیں ۔ جنوبی وزیرستان کے ساتھ ملحقہ علاقہ ٹانک ہے اور ڈیرہ اسماعیل خان ٹانک سے بھی 60 سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے تو جو لوگ حالیہ بدامنی کو محل وقوع کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ زمینی حقائق کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ بس جو معلومات ان کو فراہم کی جاتیں ہیں انہی پر تکیہ کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والے واقعات سیکورٹی کے معاملات کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دے رہے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ اختیار رکھنے والوں کو لوگوں، بالخصوص یہاں کے لوگوں، کی سوچ یا رائے کی کوئی پرواہ ہے۔ مگر یہ بتانا ضروری ہے کہ یہاں کے عام لوگوں کی حکومت سے توقعات کم ہو رہی ہیں اور وہ دن دور نہیں کہ ان علاقوں کے لوگوں میں بھی وہی شکوک و شبہات جنم لیں جو سابقہ فاٹا یا دیگر پشتون آبادیوں پر مشتمل علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔

بدقسمتی سے پنجاب یا سندھ کے برعکس ہمارے خیبر پختونخوا کے حالات بالکل الگ ہیں، یہاں ہمیں زندگی جینے کے لالے پڑے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ہر معاملے میں حالات ہمارے سامنے ناچنے لگتے ہیں اور پھر انسان چاہے بڑا سوچے یا چھوٹا، حالات سے متاثر ضرور ہوتا ہے۔ کئی پیچیدگیوں کے باوجود وزیرستان میں بھی انتخابات ہو رہے ہیں جس میں لوگ جوش و خروش سے حصہ لے رہے ہیں اس امید کے ساتھ کہ شاید ان کے حالات بدل جائیں۔ لیکن حالات لوگوں کی خواہشات کے منافی دکھائی دے رہے ہیں۔

اس وقت وزیرستان میں سیکورٹی کے حالات زیادہ مخدوش ہیں۔ محسن داوڑ پر ایک ہی دن میں 2 حملے ہو چکے ہیں جبکہ روزانہ کے حساب سے ٹارگٹ کلنگ اور فورسز پر حملے ہو رہے ہیں۔ شمالی وزیرستان کے برعکس جنوبی وزیرستان اپر اور لوئر میں امن و امان کی صورتحال میں اتنا فرق ہے کہ جنوبی وزیرستان میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کم ہو رہے ہیں۔ ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، اور لکی مروت سے لے کر کرک اور پشاور تک خیبر پختونخوا کے علاقے حالیہ ایک دو سالوں میں خوف اور بدامنی میں مکمل طور پر گھر چکے ہیں۔ دوسری طرف سیکورٹی کے ذمہ داران بھی ان علاقوں کی حفاظت کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے اور یہاں کے لوگوں کے لیے مزید مایوسی کا سبب بنے ہیں۔ اب ایسے حالات میں انتخابات ہوں گے تو اندیشے بھی لازمی ہوں گے۔

بطورِ ایک خوش فہم انسان میں نے انتخابات سے ملک میں استحکام کے لیے امیدیں وابستہ کی ہیں لیکن ان امیدوں کے ساتھ ہی سوالات بھی موجود ہیں کہ جن حالات میں انتخابات ہو رہے ہیں ان کے نتائج کے بعد پہلے مرحلے میں کیا ہو گا؟ کیا کوئی مستحکم حکومت بننے دی جائے گی جو پاکستان کے استحکام کے لیے آزادانہ کام کر سکے؟ یا پھر مرتی ہوئی معیشت اور سسٹم کے باوجود طاقتور طبقے سب سے پہلے اپنے مفادات کا تحفظ کریں گے؟ کیا اگلی حکومت ابتدائی دنوں سے ہی ڈنڈے کے نیچے رکھی جائے گی تاکہ کوئی سر اٹھانے کی جرات نہ کر سکے؟ سب سے اہم سوال کہ ان انتخابات کے باوجود اگر حکومت آٹھ نو ماہ میں ریاستی ڈھانچے میں کچھ سانسیں ڈالنے میں کامیاب ہوتی ہے تو کیا پھر کسی طاقتور کی طاقت ختم ہونے کی تاریخ نہیں پہنچی ہو گی؟ اور اگر حکومت کو پاکستان کے استحکام کے لیے محسوس ہوا کہ ملک کے لیے شخصیات کے بجائے ادارے ضروری ہیں تو کیا پھر حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی؟

یہ وہ سوالات ہیں جن میں اس ملک میں موجود خرابیوں کے جوابات موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے ایسے سوالات کا جواب ڈھونڈنا جرم ہے اور ذمہ داروں کا نام لینا ملک دشمنی۔  پھر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم پوچھیں گے نہیں، کہیں گے نہیں تو آخر اس ملک کے حالات کیسے بہتر ہوں گے؟؟؟؟ دعا ہے کہ ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی مزید ضرورت نہ پڑے اور آج کے انتخابات پائیدار استحکام کا سبب بنیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp