الیکشن سرپرائز: مسلم لیگ ن کے ساتھ کس نے ہاتھ کیا؟   

جمعہ 9 فروری 2024
author image

وسیم عباسی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

8 فروری کے انتخابات میں عام توقعات، انٹرنیشنل میڈیا کی پیش گوئیوں اور تمام سرویز کے برعکس نتائج نے سیاسی پنڈتوں کو حیران کر دیا ہے۔ الیکشن سے قبل سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے تحت پی ٹی آئی انتخابی نشان سے محروم ہو چکی تھی اور اس کے بانی سربراہ عمران خان کو عجب سرعت انصاف کے ساتھ 3 الگ الگ کیسوں میں قید اور نااہلی کی سزا بھی سنا دی گئی تھی۔

الیکشن سے 2 روز قبل پاکستان کے تمام اخبارات میں شہ سرخی چھپی تھی ’نواز شریف وزیراعظم: پاکستانی عوام نے فیصلہ سنا دیا‘ جو کہ اصل میں اشتہار تھا مگر انداز خبر کا تھا۔

ان سب چیزوں کے ذریعے یہ تاثر پختہ ہو گیا تھا کہ مسلم لیگ ن کم از کم ایک سادہ اکثریت سے اگلی حکومت بنا لے گی اور عمران خان کی جماعت کو 30-40 سے زیادہ نشستیں نہیں ملیں گی۔ مگر 8 فروری کی شام جب نتائج میڈیا پر آنا شروع ہوئے اور ابتدائی نتائج کے تحت پی ٹی آئی 100 سے زیادہ نشستوں پر آگے جاتی نظر آئی، تو سارے اندازے غلط ثابت ہو گئے۔

جیو نیوز نے رپورٹ کیا کہ ماڈل ٹاؤن لاہور میں وکٹری اسپیچ کے منتظر نواز شریف، ان کے بھائی شہباز شریف اور مریم نواز رائیونڈ روانہ ہو گئے ہیں۔

رات گئے نتائج اچانک رک گئے تو چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔ ایسے میں سینیئر صحافی اور تجزیہ کار ابصار عالم نے ٹوئٹ کی کہ ’مسلم لیگ ن کے ساتھ ہاتھ ہو گیا‘۔ ٹوئٹ پڑھ کر میں سوچ میں پڑ گیا کیا نواز شریف کے ساتھ ہاتھ کس نے کیا اور کیسے کیا؟

صرف 6 سال قبل 2018 میں نواز شریف پاکستان کے مقبول رہنما تھے اور ان کا ’ووٹ کو عزت دو کا نعرہ ‘ انہیں ملک کے طول و عرض میں ہیرو بنا چکا تھا۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ 2024 کے الیکشن میں وہ ناصرف مانسہرہ سے اپنی نشست ہار گئے بلکہ پنجاب میں بھی ان کی جماعت کی جیت متنازعہ ہو گئی اور تمام تر رکاوٹوں کے باوجود پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی شاندار کارکردگی دکھا دی۔

اگر غور کیا جائے تو مسلم لیگ ن کی بری کارکردگی اور پی ٹی آئی کی کامیابی کی 4 بڑی وجوہات ہیں۔

مسلم لیگ ن جب الیکشن میں اتری تو عمران خان کے برعکس اس کے پاس کوئی پرکشش نعرہ یا بیانیہ نہیں تھا۔  عمران خان نے مزاحمت کا بیانیہ اختیار کیا کہ وہ مقامی اور انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ’حقیقی آزادی‘ کے لیے نبرد آزما ہیں اور ان کی مہم چلانے والی ٹیم نے ’ظلم کا بدلہ ووٹ سے‘ ، ’نک دا کوکا‘ اور ’قیدی نمبر 804‘ جیسے پرجوش نعروں اور نغموں سے انہیں انقلابی رہنما کے طور پر پیش کیا۔

پاکستان کے لوگوں نے گزشتہ کئی سالوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ مزاحمت کرنے والے رہنماؤں کو پسند کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مزاحمت کرنے والے نواز شریف کو 2018 کے بعد ہونے والے تمام ضمنی انتخابات میں بھی کامیابی ملی تھی۔

تاہم نواز شریف نے 8 فروری کے انتخابات میں مقتدرہ کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے اپنا ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ چھوڑ دیا اور صرف ماضی میں کیے گئے ترقیاتی کاموں کو گنواتے ہوئے مہم چلائی تو انہیں 16 ماہ کی شہباز حکومت کے بوجھ نے بھی خاصا پریشان کیا۔

دوسری طرف مقتدرہ کے ساتھ نواز شریف کے اتحاد کے باعث عمران خان اور ان کی جماعت کے خلاف 9 مئی کے جواب میں کیے گئے مقتدرہ کے اقدامات کا غصہ بھی ووٹرز نے ان پر نکالا۔

ایک طرف بیانیے سے محرومی اور دوسری طرف مسلم لیگ نواز میڈیا اور سوشل میڈیا پر اپنا موقف مؤثر طریقے سے پیش کرنے میں ناکام رہی۔ مسلم لیگ ن کی میڈیا ٹیم نے ثابت کیا کہ وہ جدید طور کے تقاضوں اور نوجوان نسل کی ضرورت سے نابلد ہے۔

90 کی دہائی کی طرز پر اخبارات کو فل پیج اشتہارات دیے گئے، مگر ملک کے 2 کروڑ نوجوان ووٹرز کا نہیں سوچا گیا جو اخبار تو کیا ٹی وی بھی نہیں دیکھتے بلکہ انسٹا گرام، ٹک ٹاک اور دوسرے سوشل میڈیا پر بھروسہ کرتے ہیں۔

جہاں پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پر بھرپور اور موثر طور پر اپنا موقف کامیابی سے پیش کیا اور ٹوئٹر اسپیس، پاڈ کاسٹ اور ورچوئل جلسوں سے نوجوان نسل کو اپنے ساتھ جوڑے رکھا وہاں ن لیگ کی سوشل میڈیا ٹیم اپنے رہنماؤں کے لباس اور اسٹائل کی تعریفوں میں مصروف رہی اور عمران خان کے بیانیے کا موثر دفاع نہ کر سکی۔

مقتدرہ کی بھرپور حمایت کے زعم میں مسلم لیگ ن نے ٹکٹوں کی تقسیم میں کئی ہفتے ضائع کیے اور الیکشن سے صرف 3 ہفتے قبل اپنی سُست مہم شروع کی۔ نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز پنجاب کے کچھ حلقوں میں گئے جبکہ سندھ اور بلوچستان کو مکمل نظر انداز کیا۔

الیکشن سے قبل اپنے ووٹرز کو ان کے ووٹ نمبر اور پولنگ اسٹیشن کے حوالے سے آگاہی بھی فراہم نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے موبائل سروس کی بندش کا شکار ووٹر 8 فروری کو کنفیوژن کا شکار رہا۔

دوسری طرف پی ٹی آئی نے کئی روز قبل ہی موبائل اور انٹرنیٹ کی بندش کے امکان کو مدنظر رکھ کر اپنے ووٹرز کو بھرپور آگاہی اور ووٹ نمبر کی پرچی تک فراہم کر دی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ موبائل کی بندش، جس کا نشانہ پی ٹی آئی تھی اس کا شکار ن لیگ ہوئی۔

پھر یہ تاثر کہ ’ساڈی گل ہو گئی اے‘، ووٹرز کے ضرورت سے زیادہ اطمینان کا باعث بنا اور کئی لوگوں نے ووٹ کے لیے جانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ شاید اسی تاثر کے باعث پارٹی نے فری ہینڈ کے باوجود حلقوں پر ضروری محنت نہیں کی اور نتیجہ ن لیگی گڑھ سینٹرل پنجاب تک سے ناکامی کی صورت میں نکلا۔

جیسا کہ عمومی تاثر تھا اس الیکشن میں پہلی بار ووٹ ڈالنے والے نوجوان ووٹرز نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ خواتین کی اکثریت نے بھی پی ٹی آئی کا ساتھ دیا۔

مسلم لیگ ن نے نوجوان ووٹرز اور خواتین ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے خاص کوشش نہیں کی جو بہت بڑی غلطی تھی۔

سن 2000 کے بعد پیدا ہونے والے نوجوان ووٹرز کی اکثریت نواز شریف کی ماضی کی کارکردگی اور شخصیت سے واقف بھی نہیں ہے۔ ان ووٹرز تک سے نواز شریف کو متعارف نہ کروا سکنا مسلم لیگ ن کی میڈیا اور سوشل میڈیا کی بہت بڑی ناکامی تھی۔ پیپلز پارٹی تو ذوالفقار علی بھٹو سے بے نظیر بھٹو تک کو نوجوان ووٹرز سے متعارف کروانے میں کامیاب رہی مگر مسلم لیگ ن ایسا کرنے میں ناکام رہی۔

شریف خاندان میں طاقت کا ارتکاز ووٹرز کے لیے پارٹی میں کشش کو کم کرتا ہے اور بعض اوقات خاندانی مجبوریاں بھی نواز شریف کو وہ مزاحمتی لیڈر بننے نہیں دیتیں جس کی جھلک کئی بار انہوں نے دکھائی ہے۔

اگر مسلم لیگ ن کو مستقبل میں متعلق رہنا ہے تو اسے جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا اور پارٹی کے اندر بھی جمہوریت لا کر اسے نوجوانوں کے لیے متعلق بنانا ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp