ملک میں خدا خدا کر کے انتخابات ہو ہی گئے۔ جو کچھ اس بار دیکھنے کو ملا ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ دائروں میں سفر ہمارا جاری ہے۔ تاریکی کے بیچ، تیرگی کی جانب، سفر ہمارا جاری ہے۔
ہر بار پہلے کے مقابلے میں کچھ بڑھ کر دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہر بار ایسی الیکشن ‘مینجمنٹ’ ہوتی ہے کہ ہمارا الیکشن مینجمنٹ سسٹم بھی برداشت نہیں کر پاتا۔ اگر تھوڑا ماضی میں جائیں اور بات کریں 2013 کے الیکشن کی تو ‘رزلٹ مینیجنگ سسٹم’ نے ایسی تیزی دکھائی کہ 5 گھنٹوں میں ہی میاں صاحب نے وکٹری سپیچ کر ڈالی۔ اس طرح 2013 کا الیکشن ‘اور روز’ کا الیکشن کہلایا۔ اسی دائرے میں سفر کرتے ہم 2018 میں پہنچے۔ انتخابات ہوئے اور آر ٹی ایس بیٹھ گیا۔ نتائج آنا بند ہو گئے اور یہ الیکشن ‘آر ٹی ایس کے’ جبکہ بننے والا وزیراعظم ‘سلیکٹڈ ‘ کہلایا۔
اب کی بار الیکشن مینجمنٹ سسٹم ( ای ایم ایس) متعارف کرایا گیا تاکہ آسانی سے نتائج ‘مینج’ کیے جا سکیں۔ الیکشن کمیشن کا بنایا یہ فل پروف سسٹم بھی بیٹھ گیا۔ پوری رات ہی بیٹھا رہا۔ پھر جب اٹھا تو ایسی ‘مینجمنٹ’ کر کہ اٹھا کہ تمام نتائج پر پانی پھیر گیا۔ جو رات تک جیت رہے تھے، جنہوں نے رات میں مٹھائیاں کھا لیں تھیں، وہ صبح ہار گئے۔ اور جو ہار رہے تھے وہ صبح بھاری اکثریت سے جیت گئے۔ اب تاریخ شش و پنج کا شکار ہے کہ 2024ء کے الیکشن کو ‘مینجڈ الیکشن’ کہے یا ‘مس مینجڈ الیکشن’۔
یہ دائروں کا سفر اسی طرح سے جاری ہے۔ مگر اس سفر میں اتنا نیا ضرور ہوا کہ ان انتخابات بارے آخری لمحے تک غیر یقینی کے بادل چھائے رہے۔ سپریم کورٹ کو نہ صرف الیکشن کی تاریخ لے کر دینی پڑی بلکہ 8 فروری تک اس پر پہرہ بھی دینا پڑا۔ الیکشن سے قبل پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دے کر اس کا انتخابی نشان چھین لیا گیا۔ اسے آزاد لڑنے پر مجبور کیا گیا اور پھر اس کے ووٹرز کو مایوس کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ مگر پی ٹی ائی کے ووٹرز نے اپنا تمام غصہ سنبھال کر رکھا اور بیلٹ کے ذریعے نکالا۔ یہ بھی شاید پہلی بار ہوا کہ الیکشن سے قبل جس پارٹی کی ہوا بنائی اور چلائی گئی، جس پارٹی کے حق میں تجزیے، تبصرے اور سرویز کرائے گئے، جس کو دوڑنے کے لیے لیول کر کہ فیلڈ دی گئی، وہی پارٹی ہار گئی۔
بے شک ہمارے ملک میں سکیورٹی مسائل ہیں۔ یہاں اہم موقعوں پر موبائل سروس بند بھی کر دی جاتی ہے۔ مگر ایسا پہلی بار ہوا کہ پورے ملک میں پورا دن موبائل سروس بند کر دی گئی جس سے ووٹرز اور عملے کو شدید مشکلات پیش آئیں۔ ایسا بھی پہلی بار ہوا کہ ہارنے والے بھی اور جیتنے والے بھی برابر حیران و پریشان ہیں کہ اس بکھرے ہوئے مینڈیٹ کے ساتھ کون کس کے ساتھ حکومت بنائے گا۔ اس کا جواب نواز شریف کی جانب سے اتحادی حکومت بنانے کی خواہش کی صورت میں سامنے آ ہی گیا اور اب امکان یہ ہے کہ ملک میں ‘پی ڈی ایم ٹو’ حکومت بنانے کی کوشش کی جائے گی۔
منصفانہ اور شفاف انتخابات ایک خواب ہی ہو کر رہ گیا ہے۔ سیاستدان شفاف انتخابات کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنانے کی بجائے اپنی مرضی اور منشا کے مطابق انتخابی نتائج دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں اور اسی تناظر میں وہ انتخابات کے لیے ماحول تیار کرتے ہیں۔ انتخابات سے پہلے ہی نتائج کے بارے میں روڈ میپ تیار کرنا، انتخابی نتائج کو اپنی مرضی کا رنگ دینا، کسی کی حمایت میں انتخابی ماحول بنانا ہمیشہ سے ہمارے مقتدر حلقوں کا شیوہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابی عمل کی ساکھ یا اس کی شفافیت پر ہمیشہ سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ 2024ء میں ایک مرتبہ پھر یہی سوال اٹھ رہے ہیں۔ شفاف انتخابات کا خواب ‘دیوانے کا خواب’ بن گیا ہے۔ لیکن دائروں میں سفر ہمارا جاری ہے۔ تاریکی کے بیچ، تیرگی کی جانب، سفر ہمارا جاری ہے۔