فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کی جانب سے 2022 کے حوالے سے جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس دنیا بھر سے 8 کروڑ 93 لاکھ افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے ۔
نقل مکانی کی مختلف وجوہات میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، تنازعات اور ظلم و ستم کے واقعات شامل ہیں۔ مہاجرین کو پناہ دینے والے ممالک میں ترکی، کولمبیا، یوگنڈا اور جرمنی شامل ہیں۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد اکثر افغان شہریوں نے صورت حال سے فرار حاصل کرتے ہوئے دیگر ممالک میں پناہ لی۔
افغان شہریوں میں سے ایک 16 سالہ افغان مہاجر فرانس کے ایک کیمپ میں رہنے پر مجبور ہے۔ مختلف ممالک میں مقامی شہریوں کی جانب سے بھی مہاجرین کو شدید تنقید اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
مغربی فرانس میں مہاجرین کے لیے سینٹر قائم کرنے کے اقدام کے خلاف دائیں بازوں کی جماعتوں کی جانب سے احتجاج ہوا تھا۔
عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق روہنگیا پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سمندر اور خشکی کے راستے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کا رخ کر رہی ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں میکسیکو کے ساتھ سرحد کو بند کرنے کی حمایت کے سبب مہاجرین کو شدید مشکلات کا سامنا رہا تھا۔
امریکا اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کروانے میں ناکامی پر صدر ٹرمپ نے سرحد بند کر دی تھی۔ جنوبی امریکی ملک وینزویلا میں معاشی حالت سے تنگ آ کر شہری ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔














