سپریم کورٹ نے توہین مذہب کیس میں شہری کی ضمانت منظور کرتے ہوئے پولیس کو ہدایت کی ہے کہ توہین مذہب کے حساس معاملات کی نگرانی اور تفتیش ایس پی رینک سے کم کا افسر نہیں کرے گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے توہین مذہب کے الزام میں گرفتار ملزم پیر زبیر صابری کی درخواست ضمانت پر سماعت کرتے ہوئے ملزم کی بنا وارنٹ گرفتاری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایس پی اسلام آباد پولیس رخسار مہدی کو طلب کر لیا۔
مزید پڑھیں
دوران سماعت چیف جسٹس نے معاملے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے اسلام آباد میں کوئی گھر محفوظ نہیں، بنا وارنٹ پولیس لوگوں کے گھروں کا تقدس کیسے پامال کر سکتی ہے؟ قتل، ڈکیتی کا پرچہ تو پولیس فوری درج نہیں کرتی، کیا پولیس شکایت کنندہ کی جیب میں ہے۔
ہماری اور آپکی تنخواہ عوام دیتی ہے، تفتیشی افسر کیخلاف مقدمہ درج کرنا چاہیے، اٹارنی جنرل صاحب ایسے مقدمات تو سپریم کورٹ آنے ہی نہیں چاہیے، آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، ہمیں لا افسران سے معاونت نہیں مل رہی، لا افسران مدعی کے وکیل بن جاتے ہیں۔
دوران سماعت مدعی کی جانب سے پیر صاحب کہنے پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ نام قانون میں درج ہے، کس قانون میں دم کرنے کا لکھا ہوا ہے، کیا قرآن میں پیر کا ذکر ہے، جس پر مدعی نے عدالت کو بتایا کہ وہ پیر کے پاس دوست کے ساتھ دم کرانے گیا جہاں توہین آمیز تصویر آویزاں تھی، میں تو پیر کو نہیں مانتا صرف دوست کو دم کرانے گیا تھا۔
اس موقع پر جسٹس مسرت ہلالی بولیں؛ اگر آپ پیر کو نہیں مانتے تو دوست کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتے، عدالتی استفسار پر درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ ملزم پیر زبیر صابری 7 ماہ سے گرفتار ہے، جس پر جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ پیر کا دم اپنے کام نہیں آ رہا جو 7 ماہ سے جیل میں ہیں۔
سپریم کورٹ نے توہین مذہب کے ملزم زبیر صابری کی ضمانت 50 ہزار روپے مالیت کے مچلکوں کے عوض منظور کرتے ہوئے توہین مذہب کیس کی مزید انکوائری کرنے کا حکم دیدیا، عدالت نے پولیس کو ہدایت کی کہ توہین مذہب کے حساس معاملات کی نگرانی اور تفتیش ایس پی رینک سے کم کا افسر نہیں کرے گا، یقینی بنائیں کہ مذہب کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہو۔