انڈیا کی سپریم کورٹ نے ملک میں ایک ایسے متنازعہ انتخابی فنڈنگ نظام کو ختم کرنے کا حکم جاری کیا ہے جس کے تحت افراد اور کمپنیوں کو شناخت ظاہر کیے بغیر سیاسی جماعتوں کو لامحدود عطیات بھیجنے کی اجازت دی گئی تھی۔
انڈیا کی سپریم کورٹ کے 5 رکنی ججز پر مشتمل بینچ نے متنازعہ فنڈنگ سے متعلق آج فیصلہ سنایا ہے جس میں انتخابی بانڈز کو غیرقانونی قرار دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے معلومات خفیہ رکھنا شہریوں کو معلومات تک رسائی دینے کے حق کی خلاف ورزی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں اسٹیٹ بینک کو حکم دیا کہ وہ ان بانڈز کو جاری کرنا بند کرے اور ان کے ذریعے دیے گئے عطیات کی تفصیلات الیکشن کمیشن آف انڈیا کو فراہم کرے۔ اس سے قبل انڈیا میں ایک ہزار روپے سے لیکر ایک کروڑ روپے تک کے بانڈز فروخت کیے جاتے رہے۔
مزید پڑھیں
انڈیا میں نریندرا مودی کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے انتخابی بانڈز کی یہ اسکیم 2017 میں متعارف کرائی تھی۔ قبل ازیں، بھارت میں سیاسی جماعتوں کے لیے 20 ہزار روپے سے زیادہ عطیات دینے والوں کی شناخت ظاہر کرنا قانوناً ضروری تھا۔ سیاسی فنڈنگ کے نئے نظام نے بھارت میں سیاسی جماعتوں کو فنڈنگ کی رقم ظاہر کرنے کا پابند تو بنایا مگر ان کے لیے فنڈز دینے والوں کی شناخت ظاہر کرنا ضروری نہیں رہا۔
مودی کی حکمران جماعت بی جے پی کا کہنا ہے کہ ان بانڈز کے ذریعے نقد رقم کا استعمال ختم کرکے سیاسی فنڈنگ میں اصلاحات کی گئی تھیں، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ عطیات کی گمنام نوعیت کی وجہ سے سیاسی فنڈنگ کا نظام مبہم ہے۔
واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ ملک میں عام انتخابات سے محض چند ماہ قبل آیا ہے۔ اس فیصلے کو بی جے پی کے لیے ایک دھچکا قرار جا رہا ہے کیونکہ بانڈ کے نظام سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والی جماعت بی جے پی ہی رہی ہے۔
بھارت میں الیکشن پر نظر رکھنے والے ادارے ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز کے مطابق، گمنام ڈونرز نے 2018 سے 2023 تک ان بانڈز کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو 1.9 ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم فراہم کی، 2018 اور مارچ 2022 کے درمیان ان عطیات میں سے تقریباً 57 فیصد فنڈز بی جے پی کو ملے، اس کے مقابلے میں اپوزیشن کانگریس پارٹی کو صرف 10 فیصد فنڈز ملے۔