سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کیخلاف دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ لارجر بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود ،جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سابق چیف جسٹس نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا ہے اسے بدنیتی نہیں اعتراف جرم کہیں گے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ججز کے بیانات کو اہمیت دی جائے تو سارے فیصلے اڑنے لگیں گے۔ کیا یہ مقدمہ سپریم کورٹ اور افواج پاکستان کے لیے اچھا موقع نہیں کہ دونوں ادارے خود پر لگے الزامات کو غلط ثابت کریں۔ کیس کی سماعت 26 فروری تک ملتوی کر دی گئی۔
مزید پڑھیں
سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آج عدالتی معاونت کون کرے گا؟ مخدوم علی خان نے بتایا کہ بیرسٹر صلاح الدین تھوڑی دیر میں پہنچ جائیں گے، عدالتی معاون خالد جاوید خان بیمار ہیں وہ آئندہ سماعت پر آئیں گے۔
عدالتی معاون مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ برطانیہ میں اگر کسی عدالتی فیصلے پر تعصب کا شبہ ہو تو ہاؤس آف لارڈز اس مقدمے کو دوبارہ سے کھولنے کی ہدایت جاری کر سکتا ہے۔
سابق جج اسد اللہ چمکنی بھی عدالتی معاون کے طور پر پیش ہوئے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ آپ فوجداری قانون کے ماہر ہیں آپ کو دوسرے مرحلے میں سنیں گے۔ عدالتی معاون صلاح الدین بھی عدالت میں پیش ہو گئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صلاح الدین صاحب اگر آپ ناراض نہ ہوں تو مخدوم صاحب سینیئر ہیں پہلے انہیں سن لیتے ہیں، ہمارا اصل فوکس آئینی پہلو کی طرف ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ تمیز الدین خان کیس میں سپریم کورٹ نے ایک ویو لیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس کیس میں اصل سوال یہ ہے کہ کیا عدالتی کارروائی میں پروسس درست اپنایا گیا یا نہیں؟
دباؤ ہوگا تو یا میں دباؤ نہیں لوں گا یا بینچ سے الگ ہوجاؤں گا، چیف جسٹس
مخدوم علی خان نے جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو سے متعلق دلائل میں کہا کہ تعصب کو ثابت کرنا قریباً ناممکن ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ ہمارے سامنے جو معاملہ ہے وہ تعصب کا ہے یا سابق جج کے اعتراف کا؟ مخدوم علی خان نے بتایا کہ جج کے انٹرویو کا ایک حصہ تعصب کے اعتراف کا ہے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ یہ تعصب کا اعتراف کہلائے گا یا غلط کاری کا اعتراف؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ انٹرویو میں دباؤ کی بات کی گئی ہے کہ دباؤ تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دباؤ ہوگا تو یا میں دباؤ نہیں لوں گا یا بینچ سے الگ ہو جاؤں گا۔
آئین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے مفادات اس مقدمے سے وابستہ تھے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ کل کوئی جج کہے کہ مجھے بیوی کا دباؤ تھا یہ آرڈر دو ورنہ کوئی اور جگہ دیکھ لو تو یہ کس کیٹیگری میں آئے گا؟ بھٹو مقدمے کے وقت مارشل لاء حکومت تھی جو پراسیکیوشن کر رہی تھی، آپ اس پہلو کو کیسے نظر انداز کیسے کر سکتے ہیں۔ جو آئین کی خلاف ورزی کرنے والے تھے ان کے اس مقدمے سے مفادات وابستہ تھے۔
سابق چیف جسٹس نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اسے بدنیتی نہیں اعتراف جرم کہیں گے، قاضی فائز عیسیٰ
چیف جسٹس نے مخدوم علی خان سے کہا کہ مخدوم صاحب آپ کا جواب 2 والیم پر مشتمل ہے، ہمارا اصل فوکس آئینی پہلو کی طرف ہے، مخدوم علی خان نے کہا کہ مولوی تمیزالدین خان کیس میں سپریم کورٹ نے اہم نکتہ اٹھایا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا عدالتی کارروائی میں طریقہ کار درست اپنایا گیا یا نہیں؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ ذوالفقارعلی بھٹو کیس فیصلے میں بدنیتی پر بات کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نے پھانسی کے فیصلے میں بدنیتی کی یا اعتراف جرم کیا؟ سابق چیف جسٹس نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اسے بدنیتی نہیں اعتراف جرم کہیں گے، ذوالفقارعلی بھٹو کیس کے فیصلے میں غلطی کا اعتراف کیا گیا ہے، جان بوجھ کرغلط کام کیا جائے تو اسے بدنیتی نہیں کہیں گے؟
مخدوم علی خان نے کہا کہ سابق چیف جسٹس نے انٹرویو میں کہا تھا کہ ان پر فیصلے کے لیے دباؤ تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا اختیار سماعت بالکل واضح ہے، 2 مرتبہ نظرثانی نہیں ہوسکتی، ہم اس کیس میں لکیر کیسے کھینچ سکتے ہیں، اگر میں دباؤ برداشت نہیں کر سکتا تو مجھے عدالتی بینچ سے الگ ہوجانا چاہیے، ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ کوئی تعصب کا شکار ہے، ہوسکتا ہے دوسرا یہ رائے نہ رکھے۔
دراب پٹیل بدقسمتی سے نظرثانی متفقہ طور پر خارج کرنے والے بینچ کا حصہ تھے، چیف جسٹس
مخدوم علی خان نے کہا کہ نسیم حسن شاہ نے جسٹس مشتاق اور بھٹو کے اختلافات پر بات کی، نسیم حسن شاہ نے کہا مشتاق صاحب بھٹو سے 8 سینئر ججز کو نظر انداز کرکے جسٹس اسلم ریاض کو چیف جسٹس بنانے پر ناخوش تھے، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو وہ دوسرے ججوں کی بات کر رہے ہیں، کچھ ایسا بتائیں جس میں انہوں نے اپنی بات کی ہو، افتخار احمد کے انٹرویو میں نسیم حسن شاہ نے کیا کہا؟ وہ کہاں کہا کہ مجھ پر فیصلے کے لیے دباؤ تھا؟
مخدوم علی خان نے کہا کہ وہ اس کیس کے لیے مخصوص نہیں ایک مجموعی تناظر میں تھا، نسیم حسن شاہ نے کہا مشتاق صاحب کو اس بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے تھا، نسیم حسن شاہ نے کہا کہ شک کا فائدہ مل سکتا تھا مگر کچھ ہماری کمزوری تھی کچھ یحیی بختیار نے ہمیں ناراض کردیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل پر کیسے مدعا ڈالا جاسکتا ہے؟ ناراض کردیا تھا تو کیس سننا چھوڑ دیتے یا انصاف کرتے، ناراض ہم بھی کئی بار ہوجاتے ہیں مگر یہ تو نہیں کہ فیصلہ الٹ دیں، وکیل کے کنڈکٹ کی سزا مؤکل کو نہیں ملنی چاہیے۔ کیا یہ واحد کیس ہے جس میں ڈائریکٹ ہائیکورٹ نے قتل کیس سنا؟
مخدوم علی خان نے کہا کہ رپورٹ ہوئے مقدمات میں ایسا کوئی اور کیس نہیں، ویسے شاید ہو، دراب پٹیل نے انٹرویو میں کہا تھا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، چیف جسٹس نے کہا کہ دراب پٹیل مگر بدقسمتی سے نظرثانی متفقہ طور پر خارج کرنے والے بینچ کا حصہ تھے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد ججز کے بیانات کو اہمیت دی جائے تو سارے فیصلے اڑنے لگیں گے، چیف جسٹس
ریٹائرمنٹ کے بعد ججز کے بیانات کو اہمیت دی جائے تو سارے فیصلے اڑنے لگیں گے۔ کیا یہ مقدمہ سپریم کورٹ اور افواج پاکستان کے لیے اچھا موقع نہیں کہ دونوں ادارے خود پر لگے الزامات کو غلط ثابت کریں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم یہ کہہ رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو مقدمے میں ججز پر دباؤ تھا جبکہ اس کے لیے ہمارے پاس شہادت صرف ایک انٹرویو ہے۔ وہ انٹرویو بھی اس خاص واقعے کے بارے میں نہیں بلکہ ایک جنرل انٹرویو ہے۔
سپریم کورٹ آرٹیکل 187 کے تحت بھٹو کیس کا فیصلہ کرسکتی ہے، مخدوم علی خان
مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 187 کے اختیار کو استعمال کرکے بھٹو کیس کا فیصلہ کرسکتی ہے، بھٹو کیس میں ججز کی جانبداری ثابت کرنے کے لیے جسٹس نسیم حسن، جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس اسلم ریاض کے انٹرویوز ہیں۔ ججز کی جانبداری ثابت کرنے کے لیے سلیم بیگ اور جنرل ر فیض چشتی کی کتاب اور اس وقت کے اٹارنی جنرل کا خط ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا جن صاحبان پر جانبداری کا الزام لگ رہا ہے ان کو سنا نہیں جانا چاہیے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پی ٹی وی پر جسٹس دراب پٹیل کے انٹرویو کو بھی دیکھیں گے۔
گزشتہ سماعتیں اور پس منظر
سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت پر عدالتی معاونین سے تحریری دلائل طلب کیے تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی پہلے ہی وکیل فاروق ایچ نائیک کے ذریعے جواب عدالت میں جمع کروا چکی ہے۔ 2011 میں اس وقت کے صدر آصف زرداری نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کیخلاف ریفرنس دائر کیا تھا۔
بھٹو ریفرنسں کیس کی پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو جبکہ آخری 12 نومبر 2012 کو ہوئی تھی۔ پہلی 5 سماعتیں سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی میں 11 رکنی لارجر بینچ نے کی تھیں۔
ہمیں امید ہے کہ آج اچھا فیصلہ سنایا جائے گا، شیری رحمٰن
بھٹو ریفرنس پر سماعت کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سپریم کورٹ میں موجود ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں رضا ربانی، فیصل کریم کنڈی، شیری رحمٰن، سرفراز بگٹی، ندیم افضل چن اور فاروق ایچ نائیک شامل ہیں۔
شیری رحمٰن نے سماعت سے قبل صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ہم برسوں سے اس ریفرنس پر سماعت کے منتظر تھے، ہمیں امید ہے کہ آج اچھا فیصلہ سنایا جائے گا۔ رات کے اندھیرے میں جوڈیشل قتل کیا گیا تھا۔پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ قربانیاں دی ہیں۔
شیری رحمٰن کا مزید کہنا تھا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے دہشت گردی کے خلاف لڑتے ہوئے قربانیاں دیں۔ ندیم افضل چن نے کہا کہ ابھی حکومت سازی کے لیے مذاکرات چل رہے ہیں اور کچھ بھی حتمی نہیں ہے۔