مولانا فضل الرحمان بلاشبہ اس وقت پاکستانی سیاست کا ایک اہم کھلاڑی ہے لیکن میں نے پہلے بھی اس بات کا ذکر کیا تھا کہ مولانا کی اس قدر ذہانت کے باوجود ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ان کا کاندھا استعمال کرکے انہیں بیچ منجھدار میں چھوڑ چکی ہیں۔ ایک انٹرویو میں مولانا صاحب آصف زرداری کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہہ چکے ہیں کہ زرداری کی سیاست صرف لالچ پر مبنی ہے۔ تحریک انصاف حکومت میں سیاسی جماعتوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن ہورہا تھا، عمران خان زور دے کر کہتے تھے کہ کرپٹ لوگوں کو چھوڑوں گا نہیں۔ اپوزیشن کے کئی رہنما جیل میں تھے اور انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس صورتحال سے کیسے نکلا جائے؟ ایسے میں مولانا صاحب کو بطورِ مسیحا پیش کیا گیا ان کی ڈنڈا بردار فورس سے ایک پیج پر موجود قیادت کو ڈرایا جانے لگا۔
مولانا صاحب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے پاس ایک منظم تنظیم ہے جہاں ہزاروں افراد ان پر جان نچھاور کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ لیکن ووٹ کے ذریعے ان کو وہ مقام نہیں ملنے والا جس کے مولانا صاحب متمنی ہے تب ہی تو وہ پہلی بار پوری طرح اسٹیبلشمنٹ کے خلاف فرنٹ فٹ پر آئے تھے۔ مولانا کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے مولانا صاحب کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ کوئی بھی جماعت حکومت میں آئے یا پھر مخلوط حکومت کیوں نہ بنے، شیروانی پہنانے کی عزت صرف مولانا صاحب کو ملنی ہے۔ اب موجودہ انتخابات کے بعد جب عہدے تقسیم کرنے کا وقت آیا ہے توصدارت کی کرسی آصف علی زرداری لے اڑے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مولانا صاحب کی زرداری کے حوالے سے باتوں میں تلخی کا عنصر نمایاں ہے۔
بطور سیاست کے ایک طالب علم، مجھے مولانا صاحب کی سیاست سے نظریاتی اختلاف ہے اور اس بات پر کامل یقین ہے کہ سیاست میں مذہب کے غلط استعمال سے پشتون معاشرے پر انتہائی منفی اثرات پڑے ہیں اور شاید مزید بھی پڑیں گے۔ دوسری طرف مولانا کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ان کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی ہے۔ جن دنوں پیپلز پارٹی اور ن لیگ مشکل میں تھیں تو مولانا ہی تھے جنہوں نے ان جماعتوں کو اٹھانے کے لیے اپنا کندھا فراہم کیا اور حالات کو وہاں تک لانے میں بنیادی کردار ادا کیا جہاں اسٹیبلشمنٹ یہ سوچنے پر مجبور ہوئی کہ تبدیلی ناگزیر ہے۔
مولانا صاحب کے حالیہ انٹرویوز میں انکشافات اہم ہو سکتے ہیں لیکن ایک سوال بھی اہم ہے کہ مولانا صاحب کو ایک کے بعد دوسرے چینل پر اتنی آزادی کے ساتھ بولنے کی اجازت کیسے مل جاتی ہے؟ مولانا کو یقیناً کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں لیکن چینلز کو تو یہ اجازت لینا ہوتی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اس قدر حساس معاملات میں مولانا سب کچھ بول گئے؟ اس کا حقیقی جواب شاید تبھی ملے گا جب موجودہ سابق ہو جائیں گے۔ ویسے مولانا کی باتوں سے ایک بات واضح ہو چکی ہے کہ ان کے ساتھ وعدے وعید ہوچکے تھے اور میرا ماننا ہے کہ دورہ افغانستان بھی انہوں نے انہی وعدوں کے فالو اپ کے طور پر کیا تھا۔ ورنہ اس سے پہلے انہوں نے بطورسیاسی رہنما کئی بار دعوت ملنے کے باوجود خود کو ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والے ہر طرح کے مذاکرات و معاملات سے دور رکھا تھا۔
ان باتوں کا سرسری تذکرہ اس لیے ضروری تھا کہ مولانا اس طرح کبھی کشتیاں جلا کر سامنے نہیں آتے۔ اور پھر پی ٹی آئی کے ساتھ ان کی بیٹھک تو ناممکنات میں سے تھی۔ خیبرپختونخوا میں جے یو آئی کی سیاست کو سب سے زیادہ نقصان تحریک انصاف نے پہنچایا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مولانا اب تک یہ سمجھتے آئے تھے کہ تحریک انصاف ذاتیات پر مبنی سیاست کرتی ہے اور مولانا کی ذات کو ٹارگٹ کرنا پی ٹی آئی کا ایک طرح سے منشور کا حصہ بن گیا تھا۔ اگر آپ عمران خان کی جلسوں میں کی جانے والی تقاریر پر نظر ڈالیں تو شرکاء عمران خان سے مولانا کے لیے مخصوص تضحیک آمیز الفاظ کہنے کی فرمائش ضرور کرتے تھے۔ اگر اس کے باوجود مولانا پی ٹی آئی کے ساتھ بیٹھنے کے لیے راضی ہوئے ہیں تو یہ غیر معمولی بات ہے۔
مولانا صاحب کی سیاسی تاریخ کو دیکھ کر کوئی یہ دعویٰ تو نہیں کر سکتا کہ اب وہ کوئی انقلاب لانے لگے ہیں۔ اس وقت بھی بظاہر نظر آرہا ہے کہ مولانا نئے سیٹ اپ میں کافی کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت ٹانک میں ان کے فرزند اسد محمود سے پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار داور خان کنڈی جیت چکے ہیں، ری کاؤن میں یہ نشست ظاہر ہے وہ منیج کروانا چاہیں گے۔ نئی حکومت میں کتنا شئیر ملنا ہے؟ اس کا تعین وہ مخالف مورچے میں بیٹھ کر کرنا چاہیں گے۔ اس وقت مولانا نے طاقتوروں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے جو کہ مبنی بر نتائج ثابت ہوگا۔ اس کے باوجود کہ میاں نواز شریف پارٹی کو وفاقی حکومت نہ لینے کا مشورہ دے رہےہیں اور اس وقت لیگی رہنما دوسری جماعتوں کو حکومت بنانے کے مشورے دے رہےہیں۔ لگتا یہی ہے کہ یہ بیانات سیاسی ہیں اور میاں صاحب خود کو بری الزمہ قرار دلوانا چاہیں گے باقی ہوگا وہی جو طے ہوا تھا اور یقین ہے کہ مولانا صاحب کی کشتی میں لگی آگ کو اچھی پیشکشوں کے ذریعے بجھا دیا جائے گا۔