وہ جو بے نام و نشاں گزر گئے

بدھ 21 فروری 2024
author image

اکمل شہزاد گھمن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

23 جنوری کی صبح پونے سات بجے موبائل پر ایک پیغام ملا کہ شاہین نازلی وفات پا گئیں ہیں۔ پیغام ملتے ہی ایک عجیب سی اداسی نے مجھے گھیر لیا۔ اس کیفیت سے میں ابھی تک نہیں نکلا۔ اسی طرح مایہ ناز اناؤنسر، براڈ کاسٹر اور صاحبِ علم دوست اصغر زیدی صاحب بھی اچانک گزر گئے۔ چند ہفتے قبل یکم دسمبر کو نامور کلاسیکل گویّے استاد بدرالزماں صاحب دنیا سے رُخصت ہوگئے۔

اب یہ تینوں ایسے لوگ تھے جو اپنی اپنی جگہ پر بڑے تھے۔ تینوں کی کَلَا کا میدان علیحدہ علیحدہ تھا۔نام، کام اور عمر کے حساب سے استاد بدرالزماں بہت بڑے تھے۔بدرالزماں اور قمرالزماں دونوں جوڑی کے طور کلاسیکل گانے والے معروف تھے۔ بدر صاحب بڑے تھے جب کہ قمر صاحب چھوٹے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ قمر صاحب کُچھ برس قبل وفات پاگئے تھے۔ بدر الزماں اور قمرالزماں صاحب کا تعلق اندورنِ لاہور کی کارو باری فیملی سے تھا مگر راگ داری کے شوق نے انھیں مکمل طور پر گویّا بنا دیا۔

بدرالزماں صاحب گانے میں مرکزی کردار ادا کرتے جب کہ قمر صاحب ان کو اپنی سنگت سے بھرپور معاونت فراہم کرتے۔ گانا ویسے ہی مشکل فن ہے اوپر سے کلاسیکل گانا تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ پھر آپ خاندانی گویّے نہ ہوں بلکہ عطائی ہوں تو اپنے آپ کو منوانا معجزہ ہی ہو سکتا ہے۔ استاد بدرالزماں اور قمرالزماں کی جوڑی نے یہ کام کر دکھایا۔

قمر الزماں صاحب تو اللہ لوک اور درویش طبیعت انسان تھے۔مگر استاد قمرالزماں صاحب بہت صاحبِ علم انسان تھے۔ کلاسیکل فنِ موسیقی پر انھوں نے کئی کتابیں لکھ رکھی تھیں۔ اکثر صاحبانِ علم وفن اپنے فن کا مظاہرہ تو خوب کر تے ہیں مگر وہ علم اور فن کا بیان ویسے نہیں کر پاتے جیسا کہ وہ فن کے مظاہرے میں طاق ہوتے ہیں۔استاد بدرالزماں اپنی بات کرنے اور فن کے اظہار میں مہارت رکھتے تھے۔ دونوں برادران کئی برس قبل تمغہ برائے حُسنِ کارکردگی کا اعزازبھی حاصل کر چکے تھے۔

بدر اور قمر صاحب کے کئی شاگرد ہیں۔ انھوں نے گُنی لوگوں میں اپنے آپ کو منوایا۔ وہ بھڑک باز نہیں تھے۔ دلائل سے اپنی بات ثابت کرنے کی کوشش کرتے۔

چند ماہ قبل ان کی وفات کی خبر شاعرہ اور سابقہ ایم این اے بشری حزیں نے سوشل میڈیا پر شیئر کی تو میں نے فوراً استاد بدر صاحب کا نمبر ملایا۔ آگے سے فون انھوں نے خود ہی فون اُٹھایا۔ بہت خوش ہوئے۔ میں نے کہا فروری میں لاہور آؤں گا تو آپ کا انٹرویو ریکارڈ کروں گا۔ آپ کے پاس تاریخ کا خزانہ ہے بلکہ آپ خود ایک تاریخ ہیں۔

بعد ازاں بشریٰ کو بتایا کہ خاں صاحب بالکل تند رست ہیں تو وہ بہت خوش ہوئیں۔ بشریٰ حزیں ایک زمانے میں استاد بدر الزماں سے کلاسیکل میوزک ریڈیو لاہور کے سنٹر پروڈکشن میں سیکھتی رہی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ اس مختصر کورس کی اختتامی تقریب پر فرشی نشست ہوئی تھی جہاں شاہدہ پروین نے گایا تھا۔ شاہدہ منفرد کلاسیکل اور کافی گائیکہ زاہدہ پروین کی ہونہار دُختر تھیں۔

میرے مرحوم دوست ماسٹر منظور کی بنائی اورشاہدہ پروین کی گائی ہوئی دُھن “دیپک راگ ہے چاہت اپنی” آج بھی سُر کا گیان رکھنے والے سُنتے ہیں۔

اصغر زیدی صاحب اپنی کَلَا کے اُستاد تھے۔ ان کے آباء دہلی کے رہنے والے تھے۔ گو کہ 74 سال عمر پائی مگر کبھی خیال بھی آیا تھا کہ وہ فوت ہوجائیں گے۔ وہ جذبے او ر کام کرنے کے اعتبار سے آج بھی جوان تھے۔حیدر عباس، اصغر ملک، اعجاز لائبریرین، نسیم سندھو،منیر نادر، غیور اختر، خورشید علی اور ایسے ہی کئی اور گُنی لوگ لاہور کی فنی دنیا کا حصہ تھا جن کے بارے میں گمان بھی نہیں تھا کہ یہ لوگ ایک دن نہیں رہیں گے۔آج بھی ان کے ساتھ محفلیں، گپ شپ، چائے، کھانے سب کچھ کل کی بات لگتی ہے۔زیدی صاحب غالباً سات بھائی تھے۔ اصغر صاحب کے دو بڑے بھائی شبر زیدی اور بادشاہ گر زیدی بھی صاحبِ طرز براڈ کاسٹر تھے۔

بادشاہ گر صاحب تو ماشااللہ بقیدِ حیات ہیں۔ ان کی آواز کی کھنک اور پختگی آج بھی یاد ہے۔ اب ایسے “ریڈیو پاکستان” کہنے والا بھی کوئی خال خال بچا ہے۔ ابھی تک تلفظ کے حوالے سے جب بھی راہنمائی چاہیے ہوتی، تو دو چار ہی لوگ تھے جن سے فوراً رابطہ کیا جا سکتا تھا جیسے وقار مصطفٰے صاحب، عرفان جمیل یا اصغر زیدی صاحب۔ زیدی صاحب کو ہزاروں شعر زبانی یاد تھے۔وہ اورینٹیل کالج پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ایم اے اردو کرنے کے بعد انھوں نےبہت سے پیشے آزمائے مگر آخر ی کئی برس وہ ریڈیو پاکستان لاہور کی کینٹین چلاتے رہے۔

وہ زمانہ بھی کیا خوب تھا۔ زیدی صاحب گھر کے بنے ہوئے شامی کباب لاتے جن کا لا جواب مزہ ہوتا۔ ہمارے دوست احمر سہیل بسراء تو کبابوں کے ساتھ ملنے والی ہری مرچ کی بنی چٹنی کے عاشق تھے۔ وہ کبابوں کے علاوہ بھی چٹنی ضرور منگوایا کرتے تھے۔ اے آر وائی کے انویسٹی گیشن سیل کے سربراہ نعیم اشرف بٹ صاحب بھی زیدی صاحب کے پکے گاہک تھے۔ بٹ صاحب تو زیدی صاحب کی کینٹین کے اتنے عادی تھے کہ ریڈیو کی نوکری چھوڑ نے کے بعد بھی کئی دفعہ کھانا کھانے ریڈیو آتے تھے۔

زیدی صاحب کے ساتھ گھنٹوں شعر و ادب، موسیقی اور دیگر موضوعات پر بات چلتی۔ گفت گو کے دوران شعروں کا جتنا برمحل استعمال زیدی صاحب کرتے تھے کم لوگ ہی ایسا کمال رکھتے ہیں۔

زیدی صاحب کثیر الاولاد تھے۔مالی حالات اکثر تنگ ہی رہتے مگر کبھی حالات کا شکوہ ان کے منہ سے نہیں سُنا۔جب بھی پوچھا کہا “شاہ جی اللہ کا شکر ہے”۔ اصغر زیدی صاحب اپنے دوستوں کو بھی “شاہ جی ” کر کے ہی مخاطب کیا کرتے۔ اب شاہ جی کے جانے سے ہماری شاہی بھی گئی۔ اکثر ان کا فون آجایا کرتا تھا کہ “شاہ جی” آپ کا حال پوچھنے کو فون کیا ہے۔ اب ایک ہمارا حال پوچھنے اور دعائیں دینے والا ایک اور شخص نہیں رہا۔ زیدی صاحب کے جانے سے لگتا ہے کچھ کھو سا گیا ہے۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ شاہین نازلی صاحبہ کو پہلی دفعہ میں نے کوئی 15 پرس قبل نسرین انجم بھٹی صاحبہ کے ساتھ دیکھا تھا۔ اس زمانے میں نامور علامتی افسانہ نگار علی تنہا بھی لاہور ہوا کرتے تھے۔ مجھے کہنے لگے شاہین کا خیال رکھا کریں یہ عورت بہت وضع دار اور عمدہ شاعرہ ہے۔ بہت امیر کبیر خاندان سے اس کا تعلق ہے۔ ایک زمانے میں اپنے گھر پر بہت بڑے بڑے مشاعرے اپنے گھر کروایا کرتی تھی۔ لاہور کے ادبی حلقوں میں ان کا بہت نام رہا ہے۔

تب سے شاہین نازلی صاحبہ کی وفات تک میرا ان سے رابطہ رہا۔وہ میری دوست اور ماں بھی تھیں۔ ان کی دو پنجابی شاعری کی کتابیں شائع ہوئیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے ایم اے پنجابی کے نصاب میں بھی شاہین نازلی کا کلام شامل ہے۔ وہ اردو کی بھی اچھی شاعرہ مانی جاتی ہیں۔ عمومی شاعرانہ نرگسیت کا شکار نہیں بنیں البتہ حالات کا بہت بری طرح شکار تھیں۔

شادی ناکام ہو چُکی تھی، نام کا رشتہ تو شاید تھا مگر وہ برس ہا برس سے تنہا زندگی گزار رہی تھیں۔ میرے دوست ادریس چیمہ اور ان کی بیگم صاحبہ بھی کبھی کبھار مدد کیا کرتی تھیں۔ اسی طرح میرے چھوٹے بھائی اجمل نثار بھی ہمیشہ ان کی آواز پر لبیک کہا کرتے۔ میرے ذمے بس ان کے دو فون نمبرز پر کارڈ لوڈ کروانا ہوتا تھا۔

وہ فون کرتیں اور ہنس کر کہتیں آپ کو پتا ہی ہے میرا فون کیوں آتا ہے۔ دوسرا کام اکادمی ادبیات سے ان کے سہہ ماہی وظیفے کا پتا کرنا ہوتا تھا۔ میں پنجابی کے صاحبِ طرز کہانی کار اور اکا دمی میں ایڈمن آفیسر اپنے دوست ملک مِہر علی صاحب کو فون کر کے آگاہی لیتا پھر شاہین صاحبہ کو بتاتا۔ چند ماہ قبل حسن نثار نے اپنے ایک کالم میں شاہین نازلی کا ذکر کیا کہ کیا ہی اچھی شاعرہ تھی نہ جانے کہاں گُم ہوگئی ہے۔ میں نے ان کے مینجر عاصم کو فون کرکے شاہین صاحبہ کا بتایا کہ یہ ان کا نمبر ہے اور وہ سخت کسمپُرسی کی حالت میں زندگی گزار رہی ہیں۔مگر حسن نثار صاحب کی طرف سے ویسے ہی ردَعمل آیا جیسا بڑے لوگوں سے توقع کیا جا سکتا ہے۔مطلب خاموشی۔

نامور شاعر برادرِ اکبر جناب شعیب بن عزیز جب پنجاب حکومت میں عمل دخل رکھتے تھے تو انھوں نے نازلی صاحبہ کو 50 ہزار کا ایک چیک دلوایا تھا۔

مجھے نازلی صاحبہ کے گزر جانے کی خبر سے تاحال ایک اداسی کی کیفیت نے گھیر رکھا ہے کہ اپنے وقت میں ہم کتنے ہی نامور کیوں نہ ہوں ایک وقت آتا ہے کہ ہمیں جاننے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ کسی پر یہ وقت جلدی آجاتا ہے کسی پر سالوں صدیوں بعد۔شاہین نازلی صاحبہ کی وفات پر کسی ااخبار،ٹی وی، ریڈیو، سوشل میڈیا پر یک سطری خبر بھی نظر سے نہیں گزری۔ نہ جانے ہم میں سے کتنے لوگ بے نام و نشان وقت کا رزق بنتے رہتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اکمل گھمن تحریر و تحقیق کی دنیا کے پرانے مسافر ہیں۔ 'میڈیا منڈی' اور پنجابی کہانیوں کی کتاب 'ایہہ کہانی نہیں' لکھ کر داد وصول کر چکے ہیں۔ بی بی سی اردو سمیت مختلف اداروں کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ آج کل وی نیوز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp