سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ اگر سابق وزیراعظم خاقان عباسی پارٹی نہیں چھوڑتے تو مریم نواز انہیں نکال باہر کرتیں۔
وی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی پہلے ہی میاں محمد نواز شریف کو بتا چکے تھے کہ جب پارٹی مریم نواز کے حوالے کی جائے گی تو وہ پیچھے ہٹ جائیں گے۔
مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ بے نظیر بھٹو بھی جب آئی تھیں تو جتنے انکلز تھے انہیں ہٹا دیا گیا تھا لہٰذا اس سے پہلے کہ مریم شاہد خاقان عباسی کو ہٹائیں وہ خود ہی سائیڈ پر ہوگئے اور پارٹی چھوڑ دی۔
’میری اور عباسی کی سوچ ایک ہے، محمد زبیر ہمارے گروپ میں نہیں‘
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ان کی اور شاہد خاقان عباسی کی سیاسی سوچ ایک جیسی ہے اور وہ ساتھ ہوتے ہیں لیکن سابق گورنر سندھ محمد زبیر کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ ان کے گروپ میں نہیں ہیں محمد زبیر کے پارٹی کے ساتھ تحفظات الگ ہیں اور ہمارے کچھ اور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات میں اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود یہ متنازع اس لیے ہوگئے کہ سب سے بڑی جماعت کسی سے بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن 2018 پر پاکستان مسلم لیگ ن کو تحفظات تھے اور اب پاکستان تحریک انصاف کو ہیں۔
متنازع انتخابات پاکستان کی معیشت پر کیا اثرات ڈالیں گے؟
مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ کچھ دن تو حکومت سازی میں لگتے ہیں لیکن اس بار یہ معاملہ کچھ زیادہ ہی طول پکڑ گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کو چاہیے کہ اس معاملے کو جلد از جلد نمٹائیں کیوں کہ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو یہ معیشت کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
مسلم لیگ ن کو معیشت کے حوالے سے کیا پالیسی رکھنی چاہیے؟
مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ نئی حکومت کو سب سے پہلے تو آئی ایم ایف کے پاس جانا ہوگا مارچ میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ہوں گے حکومت کو چاہیے کہ ان کے ساتھ نیا اگریمنٹ کریں کیوں کہ یہ کہ یہ معیشت کے لیے بہت ضروری ہے، معاشی پالیسی کے لیے دوسری چیز مہنگائی کو کم کرنا ہے اور سب سے پہلے کچھ اخراجات کم کرنا پڑیں گے، کچھ شعبوں پر ٹیکس لگانا ہوگا جیسے کہ رئل اسٹیٹ سیکٹر پر زراعت اور دوکان داروں پر بھی ٹیکس لگانا ہوگا اور تیسری چیز نجکاری کے عمل کو تیز کرنا ہوگا یہ وہ فیکٹرز ہیں جو صاحب یا خاتون اس پر ڈیلیور کر سکتے ہیں وہ ان کے معاشی ٹیم کے لیڈر ہونے چاہیں۔
عوام کو فوری ریلیف کیسے ملے گا؟
انہوں نے کہا کہ اگر وہ اس حکومت کی معاشی ٹیم کا حصہ ہوتے تو سب سے پہلے عوام کو ریلیف دینے کا ادراک کرتے کہ ریلیف ہوتا کیا ہے، اگر تو حکومت نجکاری نہیں کرتی تو اس کا مطلب ہے بجلی اور گیس مہنگی رہے گی اگر آپ نے مصنوعی قیمتیں کم کیں تو حکومت کو خسارہ ہوگا جس کو پورا کرنے کے لیے نوٹ چھاپنے پڑتے ہیں اور پھر مہنگائی ہوتی ہے، ہم امیر لوگوں سبسڈی دے رہے ہوتے ہیں اور غریب لوگوں پر مہنگائی کا بوجھ ڈال رہے ہوتے ہیں، حکومت اپنے اخراجات کم کرے، لاگت کم کرے، نوٹ کم چھاپے وہ ریلیف ہے عوام کے لیے۔
کیا مسلم لیگ ن عوام کو ریلیف دے پائے گی؟
مفتاح اسماعیل کا کنہا تھا کہ ن لیگ سے وہ لوگ چلے گئے ہیں جن کو معیشت کے حوالے سے چیزوں کا زیادہ ادراک تھا لیکن ایک بڑی جماعت ہے دوسری بڑی سیاسی قوت ہے پاکستان کی ٹینوکریٹس بھی رکھ سکتی ہے، لیڈر شپ کا کام ہوتا ہے ایک وژن وہ کہتے ہیں کہ آپ کام کریں اور جو بھی مشکل فیصلے ہیں وہ ہم کریں گے اگر ایسا ہوا تو پھر ہوسکتا ہے۔
’میں پاکستان کی سمت کو بدلنے کی بات کرتا ہوں‘
مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ میں پاکستان کی سمت کو بدلنے کی بات کرتا ہوں نہ کہ نظام کو بدلنے کی، میں سمجھتا ہوں کہ مقامی حکومت کو فعال ہونا چاہیے، میں سمجھتا ہوں نجکاری ہو اور جو سڑکیں، اسکول وغیرہ بنانے میں پیسہ خرچ کرنے کی بجائے بے نظیر انکم سپورٹ جیسے پروگراموں میں پیسہ لگا کر لوگوں کو سپورٹ کرنا چاہیے 9 کروڑ پاکستانی جو غربت کی لکیر سے نیچے ہیں ان کو اوپر لانا بہت ضروری ہے۔
’لوگوں کی توجہ دوسری طرف ہو جائے گی‘
مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ حکومت بنانے میں وقت لگ رہا ہے اگر یہ بن گئی تو پھر لوگوں کی توجہ اس طرف ہوگی کہ کون وزیر بن رہا ہے کیا کام اور پالیسی آنے والی ہے، اس بات کا اندازہ ہے کہ حکومت کو مشکلات درپیش ہوں گی۔
’میری خواہش تھی قومی حکومت بنے‘
مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ ان کی خواہش تھی کہ تمام جماعتیں مل کر ایک قومی حکومت بنائیں جو آئینی ترامیم کرکے 2 سال بعد پھر انتخابات کرادے لیکن دونوں طرف آگ برابر لگی ہے یہ بھی بات نہیں کر رہے اور خان صاحب تو بات کرنا ہی نہیں چاہتے۔
’عمران خان کی پارٹی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے‘
مفتاح اسماعیل نے عمران خان کے حوالے سے کہا ہے کہ میں مانتا ہوں پاکستان تحریک انصاف سب سے بڑی پارٹی ہے اور میں یہ بھی مانتا ہوں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور انہیں سیٹیں کم ملی ہیں لیکن دیگر جماعتوں نے خان صاحب سے پھر بھی زیادہ ووٹ لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خان صاحب کو جس پاکستانی نے ووٹ دیا میں اس کو مانتا ہوں لیکن خان صاحب کو بھی چاہیے کہ وہ اس پاکستانی کو بھی مانیں جس نے کسی اور کو ووٹ دیا ہے۔
کیا وفاقی وزرا پر کسی قسم کا کوئی دباؤ ہوتا ہے؟
اس حوالے سے مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ وزیر وزیر اعظم کی صوابدید پر کام کرتا ہے اور اگر وزیر اعظم کو وہ سمجھ نہیں آئے گا تو ہٹا دیا جائے گا جو کوئی بری بات نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے ہٹانے سے متعلق تحفظات تھے وہ الگ بات ہے۔
’مسلم لیگ ن کو پتا نہیں تھا کہ کرنا کیا چاہیے‘
اپنے دور وزارت کے حوالے سے مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ اس وقت مسلم لیگ ن کو کلیئریٹی نہیں تھی کہ کیا کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف ہم جیسے لوگ تھے جو سمجھتے تھے کہ اگر آپ اس کرسی پر ہیں تو آپ کو وہ سب کچھ کرنا ہوگا جو اس ملک کے مفاد میں ہوگا، کچھ ساتھی ایسے تھے جو یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ ہم آئی ایم ایف سے لڑائی کریں گے اور جو کرنا ضروری تھا وہ کام سست روی کا شکار ہوا جس کی وجہ سے ملک کو بہت نقصان ہوا۔
’ن لیگ بلا مقصد الیکشن میں اتری جس کا نتیجہ سب نے دیکھ لیا‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ شاہد بھائی (شاہد خاقان عباسی) کے تحفظات یہ تھے کہ حکومت نہ لو ووٹ آف لو کانفیڈنس کرا کر الیکشن میں چلے جاؤ لیکن جب آپ نے حکومت لے لی تو خالی نہ بیٹھو پھر کام کرو اور الیکشن میں کسی مقصد کے ساتھ اترو بنا مقصد کے الیکشن میں اترنے کا نتیجہ سب نے دیکھ لیا۔
سال 2018 میں ن لیگ نے جو مؤقف اپنایا تھا اس پر قائم رہنا چاہیے تھا، کوئی الیکشن میں جاتا ہے وہ کہتا ہے میں الیکشن میں جیت کر یہ کروں گا جب آپ کے پاس کوئی بیانیہ ہی نہیں تو الیکشن کیسے جیتیں گے؟
مفتاح اسماعیل کے مطابق انتخابات کے حوالے سے شروع کے پول پی ٹی آئی کے حق میں تھے لیکن میاں صاحب کے آنے کے بعد مسلم لیگ ن کے نمبر پی ٹی آئی کے پاس آ گئے تھے لیکن 15 مہینوں تک 25 فیصد سے زیادہ مہنگائی ہو تو عوام پریشان ہوتے ہیں اس کے بعد غصہ ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کا ووٹر نکل کر آیا یہ نہیں کہ مسلم لیگ ووٹر نہیں مسلم لیگ کا ووٹر ہے لیکن میاں صاحب کا ووٹر نہیں نکلا، میاں صاحب نے یہ تو کہا کہ 13 سے 17 تک کیا ہوا لیکن یہ نہیں بتایا کہ پی ڈی ایم کی حکومت میں کیا ہوا، پھر نگران حکومت بھی ان کے ساتھ تھی انہوں نے جو قیمتیں بڑھائی اس کا گند بھی ان کے سر آیا۔
’ن لیگ کا بیانیہ تھا کہ ہمیں واپس لے آؤ‘
مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ ن لیگ کے پاس کوئی بیانیہ ہی نہیں تھا سوائے اس کے کہ ہمیں واپس لے آؤ جبکہ عمران خان کا بیانیہ تھا مہنگائی کے خلاف ووٹ دو، ظلم کے خلاف ووٹ دو وغیرہ وغیرہ ایک بیانیہ تھا سچا یا جھوٹا اس نے اپنا ووٹر نکال دیا، ن لیگ کو اتنی آسان فیلڈ ملی لیکن ان کا ڈبہ بیٹھ گیا۔
’عمران خان کا جیل میں بند ہونا پی ٹی آئی کے لیے اچھا ثابت ہوا‘
انکا کہنا تھا کہ روس اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے حکومت جس کی ہوتی مہنگائی تو ہونی تھی، عمران خان کا جیل میں بند ہونا پی ٹی آئی کے لیے اچھا ثابت ہوا، پھر عدت کا کیس، توشہ خانہ کیس کا فیصلہ یہ وہی جج تھے جنہوں نے میاں محمد نواز شریف کو سزا دی جس نے مجھے اور شاہد خاقان عباسی کو جیل بھیجا تو ان جج صاحب کی اتنی زیادہ کریڈیبیلیٹی نہیں۔
’عمران خان نے جس طرح میڈیا کا استعمال کیا ن لیگ نہ کرسکی‘
مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ عمران خان میڈیا پر دن رات میاں صاحب کے بارے میں لگے رہتے تھے لیکن نہ ہی ن لیگ نا نگران حکومت عمران خان کے خلاف ایسا کچھ کر پائی، جو سزائیں تھیں اس کے بارے میں عوام کو بتایا جا سکتا تھا عدالتوں پر پاکستانی عوام کو اتنا اعتماد نہیں ہے، ایک مرتبہ نہیں ہزار دفعہ حقائق سامنے رکھنے پڑتے ہیں۔
’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘
انہوں نے کہا کہ کمشنر راولپنڈی کے بیان کو سنجیدہ لینا چاہیے عدالت کو چاہیے کہ ان کو بلائے اور پوچھے کہ کس نے ان کو بے ایمانی کا کہا، کس طرح بے ایمانی کی گئی ہے اور اصل نمبرز کیا تھے یہ ساری باتیں کمشنر سے کرنا ضروری ہیں، کمشنر صاحب کی یہ بات ہوا میں چھوڑ دینا صحیح نہیں ہوگا، یہ ویسا ہی ہے کہ ایک جج نے کہا کہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ دباؤ میں دیا لیکن اس بات کو اتنا اٹھایا نہیں گیا لیکن لوگوں کے دلوں میں تو بات آگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمشنر صاحب پہلے مبارک بادیں دے رہے تھے اور پھر ان کا ضمیر جاگ گیا۔
حکومت نہ ملی تو مر جائیں گے؟
مفتاح اسماعیل نے سابق صدر مرحوم ممنون حسین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ ’یار اگر حکومت نہ ملی تو مر جائیں گے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ہم اپوزیشن میں ہوا کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ سینیٹر پرویز رشید کہا کرتے ہیں کہ ’مفتاح سیاست کا اصل مزہ تو اپوزیشن میں ہوتا ہے‘ تو مجھے ان باتوں سے کوئی مسلئہ نہیں ہے۔
’صراط مستقیم پر نہ چلے تو عالمی دوڑ سے باہر ہو جائیں گے‘
مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ پاکستان کہ سامنے اس وقت کئی شاہراہیں ہیں غلط سڑک پکڑنا بہت آسان ہے اصل سڑک پکڑنا مشکل ہے، ایک ہی سرط مستقیم ہے وہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کریں اور مہنگائی کم کریں، صوبے اور مقامی حکومت کو خود مختار بنائیں، تعلیم پر فوکس کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ آج اس پر کام شروع کریں گے تو دس پندرہ سال بعد اس کا نتیجہ ملے گا اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر پاکستان عالمی دوڑ سے باہر ہو جائے گا۔