ایک برطانوی تھنک ٹینک کے مطابق یورپی ممالک کو غیر مستحکم کرنے اور مشرق وسطیٰ اورافریقہ میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے روس اپنی صلاحیتوں کو از سر نو مضبوط کررہا ہے، جس سے نیٹو اتحاد کو ایک تذویراتی خطرہ لاحق ہے کیونکہ اس کے رکن ممالک یوکرین کی جنگ پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
1831 میں قائم ہونے والے رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کی 35 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ روس کے یوکرین پر مکمل حملے کی دوسری برسی سے صرف چند روز قبل جاری کی گئی ہے، جس میں محققین کا کہنا ہے کہ اگر مغربی ممالک یوکرین پر روسی جارحیت کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ماسکو کے غیر روایتی جنگی حربوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں
مصنفین جیک واٹلنگ، اولیکسینڈر وی ڈینیلیوک اور نک رینالڈس نے بلقان کو ’فساد کے لیے تیار خطہ‘ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جیسے جیسے یوکرین میں جنگ طول پکڑ رہی ہے، روس کو مزید بحران پیدا کرنے میں دلچسپی ہے۔ ’روس یوکرین کے شراکت داروں کو غیر مستحکم کرنے میں بھی دلچسپی رکھتا ہے، اور یورپ بھر میں متوقع انتخابات کے ساتھ انتشار کو بڑھاوا دینے کے وسیع مواقع موجود ہیں۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ مالڈووا جیسے ممالک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی روسی کوششیں سیکیورٹی کی خامیوں اور کریملن کے کارندوں کو بڑے پیمانے پر بے دخل کرنے کی وجہ سے ناکام ہوئیں، روسی فوج اب غیر روایتی حملے کرنے کی اپنی صلاحیت کو مضبوط کر رہی ہے۔
روسی خفیہ خدمات سے حاصل کردہ دستاویزات اور یوکرین اور کچھ یورپی ریاستوں میں سرکاری اداروں کے ساتھ انٹرویوز کا استعمال کرتے ہوئے، رپورٹ میں یوکرین میں موجودہ تنازعہ سے آگے بڑھ کر اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے روس کی کوششوں کی داستان بیان کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق مذکورہ خطرہ یوکرین اور ان ریاستوں کے فعال تعاون سے باہر تک پھیلا ہوا ہے جن کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، روس افریقی اور مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کے ساتھ بھی تعلقات بڑھا رہا ہے، ان خطوں میں مغربی مفادات کو بے دخل کر رہا ہے۔ یہ نیا ’روسی استعمار‘ تخلیق کرنے کی کوشش کرتا ہے، جسے محققین’غیر روایتی نوآبادیاتی ذہنیت‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔