سابق وزیرِاعلیٰ بلوچستان، چیف آف ساراوان نواب اسلم رئیسانی نے ’وی نیوز‘ کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں خود کو حق پرست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ قوم پرست سیاست کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ جو بلوچوں کا حق ہے وہ انہیں ملنا چاہیے۔
اسٹیبلشمنٹ اور عام آدمی کی سوچ میں فرق ہے
سابق وزیرِاعلیٰ بلوچستان کا کہنا ہے کہ بلوچستان سمیت دیگر صوبوں اور فیڈریشن کا حال ٹھیک نہیں اور ایسا اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کی وجہ سے ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ایک تنخواہ دار طبقہ ہے۔ تنخواہ دار طبقے کی سوچ اور سیاسی آدمی کی سوچ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ سیاسی آدمی عوامی مسائل کو دیکھ کر اپنی رائے قائم کرتا ہے اور اس رائے پر عمل کرتا ہے جس سے لوگوں کے مسائل حل ہوں۔
اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتیں بناتی اور توڑتی ہے
ایک سوال کے جواب میں نواب صاحب کا کہنا تھا کہ مسٹر جناح کے بعد اب تک اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی سے سیاسی جماعتیں بناتی اور توڑتی ہے۔ پھر سیاسی جماعتیں بناکر مختلف حکومتوں کا حصہ بناتی ہے جبکہ کچھ کو بلیک میل کرنے کے لیے اسی جماعت کا حصہ رکھتی ہے۔
پالیسیوں کی ناکامی یا سیاسی غلطیاں
ریاستی پالیسیوں کی ناکامی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں اسلم رئیسانی کا کہنا تھا کہ اس میں ناکامی کی بات نہیں بلکہ اس میں ہماری غلط کاریاں ہیں۔ افغان جہاد میں جو ضیاالحق نے کیا، پھر مشرف آیا اس نے اپنا ایک ماڈرن نظریہ پیش کیا۔ یہ سب ان کی سیاسی غلطیاں ہیں۔
سابق وزیرِاعلی نے اپنی بات دہراتے ہوئے کہا کہ ایک شخص جو تنخواہ دار ہے، اس کی سوچ میں، ایک سیاسی آدمی کی سوچ میں اور ایک کاروباری شخص کی سوچ میں بہت فرق ہے۔ کسی بھی شخص کو اس کے کام سے ہٹا کر کوئی اور کام دیں گے تو وہ اسے نہیں آئے گا۔
نواب اسلم رئیسانی کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کے کارندے یہاں آتے ہیں، سیاسی جماعتیں بناتے ہیں پھر ایک دو سال بعد ان لوگوں کا ٹرانسفر ہوجاتا ہے۔ پھر اس افسر کی جگہ ایک اور آجاتا ہے پھر اس کی سوچ اور ٹرانسفر ہوجانے والے کی سوچ میں فرق سے تضادات پیدا ہوتے ہیں۔
طالبان سیاسی لوگ ہیں
سابق وزیرِاعلیٰ کا کہنا تھا کہ اسٹیبشلمنٹ کی غلط کاریوں سے یہ ناکامیاں دیکھنی پڑ رہی ہیں۔ ناکامی دیکھیں اور دہشتگردی دیکھیں۔ افغانستان میں اس وقت امن ہے اور وہ ہمارا دوسرا گھر ہے اور جب افغانستان میں امن آئے گا تو پھر یہاں بھی امن ہوگا۔
پاکستان اور افغانستان کے حالات کا موازنہ کیا جائے تو افغانستان کے حالات ہم سے بہتر ہیں کیونکہ وہاں پر براہِ راست سیاسی لوگوں کی حکمرانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ طالبان ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ وہ سیاسی لوگ ہیں۔
عمران خان اسٹیبشلمنٹ کی پیداوار ہے
اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نواب صاحب کا کہنا تھا کہ اس فیڈریشن کو جتنا نقصان اسٹیبلشمنٹ نے پہنچایا ہے مجھے نہیں لگتا کہ آزادی پسند نے بھی اتنا نقصان پہنچایا ہو۔ عمران خان اسٹیبشلمنٹ کی پیداوار ہے۔
عمران خان کو دھاندلی کرکے اسٹیبشلمنٹ نے جتوایا اور آج وہی عمران اور جماعت صاف شفاف انتخابات کی بات کر رہی ہے۔ یہ تضادات کا ایک مجموعہ ہے کہ دھاندلی کی پیداوار جماعت صاف شفاف انتخابات کی بات کر رہی ہے۔ یہ سب اسٹیبشلمنٹ کی غلط کاریاں ہیں۔
حکومت عمران خان کو کیوں گرفتار کرنا چاہتی ہے؟
ایک سوال کے جواب میں نواب اسلم رئیسانی کا کہنا تھا کہ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ عمران خان آئندہ وزیرِاعظم ہوگا یا نہیں۔ عمران خان نے جو ہتکھنڈے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور دوسری جماعتوں کے خلاف استعمال کیے آج وہی ہتھکنڈے عمران خان کے خلاف استعمال کیے جارہے ہیں۔ یہ نہیں ہونا چاہیے۔ آپ عمران خان کو کیوں گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔ اس کو ضمانت دیں جتنی پیشیوں پر آسکتا ہے آنے دیں۔
نواب صاحب کا کہنا تھا کہ نواز شریف اپنے بیٹے کی کمپنی میں ڈائریکٹر ہیں، نواز شریف سے اتنا پوچھا گیا کہ آپ نے تنخواہ کیوں نہیں لی۔ اس بات پر اس کو پارٹی کی صدارت سے نکال دیا۔ اب وہ کبھی وزیرِاعظم بھی نہیں بن سکتے، یہ کیا ہو رہا ہے۔
3 امور فیڈریشن کے پاس ہونے چاہییں
آج ہم کہتے ہیں کہ فیڈریشن کو مضبوط ہونا چاہیے لیکن فیڈریشن اس وقت مضبوط ہوگی جب آپ وفاقی اکائیوں کو مکمل اختیارات دیں گے۔ میں سمجھتا ہوں 3 امور فیڈریشن کے پاس ہونے چاہئیں جن میں مواصلات، مالی معاملات اور غیر ملکی تعلقات شامل ہیں۔ باقی تمام اختیارات صوبوں کے پاس ہونے چاہیں۔ اس سے ہم کسی کی طرف انگلی اٹھا کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم کھا گئے یا تم کھا گئے۔
جن وسائل کو عوامی مسائل حل کرنے پر خرچ کرنا چاہیے اسے ہم جنگ پر استعمال کر رہے ہیں اور جنگ کرتے بھی نہیں۔ اب کشمیر ہم سے چلا گیا۔ کشمیر کے اب صرف 2 ہی راستے ہیں یا تو اسے آزاد کریں یا آپ جنگ کریں مگر نہ آپ اسے آزاد کروا رہے ہیں نہ ہی جنگ کر رہے ہیں۔
کشمیر جنگ ہی سے جیتا جا سکتا ہے
نواب صاحب کا کہنا تھا کہ ہم سال کے 9 سے 10 ارب ڈالر جنگی ساز و سامان پر خرچ کرتے ہیں لیکن اگر اس رقم کو سوشل سیکٹر پر لگائیں یعنی ایری گیشن، زراعت، صحت، تعلیم اور دیگر شعبوں میں لگائیں تو اس سے فیڈریشن کی شکل خوبصورت ہوجائے گی۔
‘اپنے فضول اخراجات کو ختم کریں۔ یہی میں نے کہا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں، اسلامک کانفرنسیا جلسے جلوس سے کشمیر ہم نہیں جیت سکتے۔ کشمیر کو پانے کا ایک ہی راستہ ہے یا جنگ کریں یا اس مسئلے کو بیٹھ کر حل کیا جائے۔’
قوم پرست سیاست کو ختم نہیں کیا جاسکتا
سابق وزیرِاعلیٰ کا کہنا تھا کہ قوم پرست سیاست کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ میں قوم پرست نہیں حق پرست ہوں۔ میں کہتا ہوں جو ہمارا حق ہے، جو بلوچوں کا حق ہے ان کا حق ان کو ملنا چاہیے۔
اگر آپ نے خدمت کرنی ہے تو اس میں قوم نہیں دیکھی جاتی کہ پشتون ہے یا بلوچ۔ پھر آپ نے برابری کی بنیاد پر سب کی خدمت کرنی ہے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ عوام کی مشکلات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسیاں ترتیب دیں۔