نگراں وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر کو کراچی میٹرک بورڈ کے 10ویں جماعت کے نتائج 2023 میں ہیراپھیری سے متعلق انکوائری رپورٹ موصول ہوگئی۔
وزیر اعلیٰ ہاؤس کے ترجمان کے مطابق سیکریٹری اسکول ایجوکیشن ڈاکٹر شیرین مصطفیٰ کی سربراہی میں تحقیقات ہوئی ار کمیٹی نے اپنی سفارشات سے متعلق وزیراعلیٰ کو بریفنگ اور انکوائری سفارشات پیش کیں۔
مزید پڑھیں
کمیٹی کے مطابق پوری امتحانی ٹیم نتائج میں ہیرا پھیری کے ذمہ دار ہے اور غفلت کے مرتکب پائی گئی ہے۔ ٹیم میں کنٹرولر، ڈپٹی کنٹرولر، اسسٹنٹ کنٹرولر اور آئی ٹی ٹیم سب ہی غیر ذمہ دار پائے گئے۔
انکوائری کمیٹی نے میٹرک بورڈ میں بے ضابطگیوں سے متعلق اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ سے مزید تحقیقات اور قصور وار افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی کرنے کی سفارش کی ہے جس پر نگراں وزیراعلیٰ سندھ نے میٹرک بورڈ انکوائری کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دے دی۔
کمیٹی رپورٹ کے مطابق تحقیقات کے دوران کوئی بھی ملازم بیان دیتے وقت سنجیدہ نہیں پایا گیا اور اس وقت کے قائم مقام کنٹرولر امتحانات کا بیان غیر سنجیدہ تھا۔ کوئی بھی نہیں بتا سکا کہ اصل نتیجہ کیا ہے اور کتنی تبدیلیاں ہوئیں۔
اعلانیہ نتائج سے موازنہ کے لیے اصل ریکارڈ کمیٹی کو فراہم نہیں کیا گیا۔ نتائج میں ہیراپھیری کے دوران ڈپٹی کنٹرولر خالد احسان عہدے پر تھے۔ چیئرمین بورڈ نے بتایا کہ خالد احسان کا تعلق نتائج کے عمل سے براہ راست وابستہ ہے۔ خالد کو بطور ممبر تحقیقاتی کمیٹی بھی مقرر کیا گیا ہے۔
کمیٹی رپورٹ کے مطابق میٹرک بورڈ کے آئی ٹی ونگ/کمپیوٹر ونگ کو بورڈ انتظامیہ نے یکسر نظرانداز کردیا ہے اور میٹرک بورڈ کی اس غفلت کے باعث ہر طرح کی ہیراپھیری و بدانتظامی شروع ہو گئی۔
گزشتہ سال میسرز Basecamp IT Solution کی طرف سے ایک نیا رزلٹ سافٹ ویئر متعارف کرایا گیا۔ طلبا نے گزشتہ سال پرانے سافٹ ویئر کے تحت داخلہ لیا تھا۔ نئے سافٹ ویئر نے اس سال شائع مضامین کے کل نمبروں کا حساب لگا کر گزٹ میں شامل کیا۔ 2 سافٹ وئیرز میں مماثلت نہ ہونے کے باعث مزید گریڈ گریس کو بھی گزٹ میں شامل نہیں کیا گیا، یہ عمل نااہلی کا واضح ثبوت ہے اور بورڈ انتظامیہ مطمئن کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔
کمیٹی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ میٹرک بورڈ میں او ایم آر سسٹم پہلی بار متعارف کرایا گیا ہے، امتحانی پرچوں کی جانچ میں شامل اساتذہ کو کوئی تربیت نہیں دی گئی، تربیت نہ ہونے کے نتیجے میں بڑی تعداد میں غلطیاں سامنے آئی ہیں۔
بورڈ آفس انتظامیہ کی جانب سے کئی بار بڑی بے ضابطگیاں کی گئی ہیں، نئے سسٹم سے پہلے کمپنی اور بورڈ انتظامیہ کو عملہ کی مکمل تربیت کرانی چاہیے تھی، میٹرک بورڈ انتظامیہ اس مسئلے کو حل کرانے میں ناکام رہی اور کمیٹی کو مطمئن نہیں کرسکی۔ اسکیموں کے ریکارڈ پر عملدرآمد کے لیے مناسب مکمل گزٹ دستیاب نہیں تھا، تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ کوئی بھی طالب علم کئی بار سوالات کرکے کسی بھی نتیجے تک پہنچ جاتا ہے، اکثر طلبا کو مارک شیٹ کے لیے کئی بار چکر لگانا پڑتے ہیں۔
واضح رہے کہ میٹرک بورڈ نے گزشتہ ماہ 28 ستمبر کو نتائج کا اعلان کیا تھا۔ میڈیا پر چلنے والی خبروں کے مطابق میٹرک کے سالانہ نتائج میں کروڑوں روپے رشوت کے عوض ہزاروں طلبہ کے نتائج تبدیل کیے گئے اور نتائج کی تبدیلی کیس میں ناظم امتحانات عمران طارق بٹ کو عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔
کراچی میں میٹرک امتحانات کےنتائج میں بے قاعدگیوں کاانکشاف سامنے آیا تھا کہ رواں سال بھی ہزاروں طلبہ کو یکساں نمبرز دے دیےگئے، 407 طلبہ کو 999، 885 طلبہ کو 888، 839 طلبہ کو 901، 907 طلبہ کو 877، 912 طلبہ کو905 نمبرز دیے گئے۔
میٹرک اور ایف ایس سی کے نتائج پر طلبہ و طالبات سراپا احتجاج بنے رہے اور ان کی آواز میں مزید طاقت تب شامل ہوئی جب امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان نے بورڈ آفس کے سامنے دھرنا دیا۔