الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 8 فروری کے عام انتخابات میں جیتنے والی سیاسی جماعتوں کی قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن جاری کر دی ہے،جس کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن (پی ایم ایل این) 108 نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی میں سب سے بڑی پارلیمانی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نئی بننے والی حکومت کے لیے تخت کافی کانٹے دار ہوگا۔ کیونکہ پاکستان کو اس وقت بہت سے شعبوں میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
مزید پڑھیں
واضح رہے کہ ماہرین کے مطابق پاکستان کی نئی بننے والی حکومت بے شمار اندرونی اور بیرونی مسائل سے دوچار ہوگی، ان مسائل میں معاشی، سیاسی اور سفارتی چیلنجز سب سے زیادہ اہم ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ نئی حکومت ان چیلنجز سے کیسے نمٹ سکتی ہے؟۔
نئی حکومت کے سیاسی چیلنجز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سیاسی ماہر ماجد نظامی کہتے ہیں کہ نئی بننے والی حکومت کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا جن میں سب سے پہلے حکومت کو اپنی ساکھ کو منفی سے مثبت کرنا ہوگا اور ایک مفاہمانہ پالیسی اپنانا پڑے گی۔
مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے حکومت کو پارلیمنٹ میں تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو سیاسی عدم استحکام کا بھی سامنا ہو گا اور عدم اعتماد کا خطرہ پہلے دن سے ہی رہے گا کیونکہ زیادہ سیٹیں لینے والی جماعت حکومت میں نہیں آسکی۔
انتقام کو ختم کر کے ماحول خوشگوار بنانا ہوگا
اس کے علاوہ سیاسی جبر، انتقام کو ختم کر کے ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے ایک بڑی جدوجہد سے گزرنا پڑے گا۔ کیونکہ مستقبل میں بظاہر یہ صاف نظر آ رہا ہے کہ سیاسی اختلاف میں اضافہ ہوگا۔ جس سے نظام میں بے چینی موجود رہے گی اور ریاست کو قربانی دینا پڑے گی۔
الیکشن کمیشن کو دھاندلی کے الزامات کا جائزہ لینا ہوگا
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کے متنازع کہنے والوں کا کوئی بہت بڑا مارچ ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ غیر یقینی کی صورتحال تو ظاہری طور پر رہے گی اور اس کو کم کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو جن نشستوں پر دھاندلی کے الزامات سامنے آ رہے ہیں ان کا ضرور جائزہ لینا ہوگا تاکہ اس صورت حال کو کم کر کے آگے بڑھا جائے۔
معاشی استحکام کے لیے مقبول اور مضبوط حکومت کی ضرورت ہوگی
پاکستان کو معاشی اعتبار سے گزشتہ چند برسوں سے کافی زیادہ چلنجز کا سامنا رہا ہے اور 2023 میں پاکستان میں مہنگائی کی تاریخی شرح بھی ریکارڈ کی گئی تھی ۔ اس وقت بھی پاکستان کو ایک نازک معاشی صورت حال کا سامنا ہے اور اس طرح کے چیلنجز کو حل کرنے کے لیے ایک مضبوط اور مقبول حکومت کی ضرورت ہے جو مضبوط فیصلے لے سکے۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے نیشنل بزنس گروپ کے چیئرمین میاں زاہد حسین نے کہا کہ نئی بننے والی حکومت کو معاشی اعتبار سے سب سے پہلے جس چیز پر کام کرنے کی ضرورت ہو گی وہ یہ ہے کہ پاکستان کی برآمدات بجائے بڑھنے کے مزید کم ہو رہی ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا انحصار ٹیکسٹائل اور خوراک کے شعبے پر ہے، کیونکہ باقی شعبوں کوتو ہم ابھی تک اس اعتبار سے استعمال ہی نہیں کر پائے۔ جن شعبوں پر ہمارا انحصار ہے۔ وہی انڈسٹری سکڑتی جا رہی ہے۔
بجلی اور گیس کی قیمتیں کم کرنا ہوں گی
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ اور انڈیا، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں گیس اور بجلی کے یونٹ بہت کم ہیں۔ جس کی وجہ سے عالمی منڈی کے سرمایہ کاروں کو ان ممالک سے چیزیں سستی ملتی ہیں اور پاکستان میں مہنگائی کی وجہ سے ممالک کے مقابلے میں قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے کلائنٹس دوسرے ممالک کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
نئی حکومت کے لیے مہنگائی پر کنٹرول بڑا چیلنج ہوگا
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ رواں برس مہنگائی کی شرح برقرار رہنے کا امکان ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مہنگائی کی شرح میں تھوڑی کمی آ جائے۔ لیکن اس کا انحصار بھی ان چیزوں پر منحصر ہے جو ہم درآمد کرتے ہیں اگر عالمی مارکیٹ میں ان چیزوں کی قیمتیں بڑھتی ہے تو ظاہری طور پر مہنگائی بڑھے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو گیس، بجلی اور دیگر کچھ اداروں کو نجکاری کی جانب لے کر جانا ہوگا۔ کیونکہ اگر پاکستان اس جانب نہیں جائے گا تو آئی ایم کا یہ مطالبہ ہے کہ گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے، جس سے مہنگائی بڑھے گی۔
پاکستان کو ٹیکس نظام مزید بہتر کرنا ہوگا
پاکستان میں غربت کی بنیادی وجہ ٹیکس نہ دینا یا کچھ لوگوں کو ٹیکس ادا کرنا ہے۔ پاکستان آئی ایم ایف کی ڈیمانڈ کے مطابق ٹیکس تو پورے کر رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود 4500 ارب تک کے ٹیکسز اکھٹے نہیں ہو پا رہے۔ اگر ٹیکسز میں یہ خلا پورا ہو جائے تو پاکستان کی معیشت بہت بہتر ہو جائے گی۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان 9400 ارب روپے کا ٹیکس اکھٹا کر رہا ہے۔ لیکن وہ سارا ٹیکس قرضوں کے سود میں چلا جاتا ہے۔ یوں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ پاکستان کی نئی حکومت کو نئی اصلاحات لانا ہوں گی۔
حکومت کو محتاط انداز سے چلنے کی ضرورت ہے اور سب سے بڑی بات حکومت کا مستحکم ہونا ضروری ہے تاکہ روپے کی قدر کو برقرار رکھا جائے اور سٹاک مارکیٹ بھی پریشر میں نہ رہے۔
سفارتی چیلنجز کے حوالے سے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے سابق سفیر سید علی سرور نقوی کا کہنا تھا تھا پاکستان کو جس بڑے چیلینج کا سامنا ہے وہ امریکا اور چین کا تنازع ہے اور چین پاکستان کا اچھا دوست ہے جب کہ امریکا پاکستان کی حمایت کرتا ہے۔
پاکستان کو چین اور امریکا کے ساتھ برابری کے تعلقات استوار کرنا ہوں گے
امریکا بھی پاکستان کی معاشی شعبوں میں مدد کرتا ہے اس لیے پاکستان کے لیے دونوں ملک اہم ہیں۔ مگر پاکستان کی نئی آنے والی حکومت کو دونوں ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنا ہوں گے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں بہتری ترجیح ہونی چاہیے
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو خطے میں بھارت کے ساتھ بھی اچھے تعلقات استوار کرنا ہوں گے۔ بھارت میں پاکستان کے خلاف سخت گیر سوچ پائی جاتی ہے وہاں بھی جون میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ نریندرا مودی پاکستان کے خلاف اپنے سخت خیالات کو الیکشن کے لیے استعمال کر سکتا ہے جس کے باعث تعلقات میں مزید کشیدگی دیکھنے میں آ سکتی ہے۔ اس لیے نئی حکومت کو اس کے لیے تیار رہنا چاہیے کیونکہ خطے میں کوئی تنازع بھی کھڑا ہو سکتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی نئی بننے والی حکومت کو طالبان حکومت کو بھی قبول کرنا چاہیے کیوں جب تک انہیں قبول نہیں کیا جائے گا ان کا پاکستان کے بارے میں رویہ منفی رہے گا، جس سے پاکستان کو مسائل کا سامنا رہے گا۔
طالبان کے ساتھ تعلقات میں بہتری ناگزیر ہے
اس کے علاوہ پاکستان کو طالبان حکومت کے ساتھ تحریک پاکستان طالبان کے حوالے سے بھی سختی سے پیش آنا ہو گا تاکہ انہیں افغانستان میں محفوظ پناہ نہ دی جائے۔
ایران کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا ہوں گے
ایران کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نئی حکومت کو ایران کے ساتھ مسائل کو بھی دور کرنا ہوں گے۔ نگراں حکومت نے ایران کے ساتھ جو گیس پائپ لائن کا معاہدہ کیا ہے اس کے مطابق وہ 6 ماہ کے اندر گیس پائپ لائن بچھا دیں گے۔ نئی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس منصوبے کو آگے لے کر چلے ۔